#yom E Arfa Syed Zaheer Hussain Refai.#یوم عرفہ# سید ظہیر حسین شاہ رفاعی#

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
اللہم صلی علی محمد و علی آلہ و صحبہ وسلم
 یوم عرفہ کی فضیلت پر یہ کتاب عارضی طور پر نشر کی جارہی ہے۔اگر اس میں کسی بھی قسم کی لفظی معنوی غلطی نظر
 آے تو 03044653433 پر وٹس ایپ کر دیں۔شکریہ
 عرفات سے واپسی پر اللہ کا ذکر
فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۠ وَاذْكُرُوْهُ كَمَا ھَدٰىكُمْ ۚ وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّاۗلِّيْنَ ۔سورہ البقرہ198
ترجمہ تبیان القرآن ‘ اور جب تم عرفات سے (مزدلفہ میں) واپس آؤ تو مشعر حرام کے پاس اللہ کو یاد کرو ‘ اور جس طرح اس نے تم کو ہدایت دی ہے اس طرح اس کا ذکر کرو ‘ اور بیشک اس سے پہلے تم ضرور گمراہوں میں سے تھے
عشرہ ذوالحج کا ہرروزہ سال اور ہر رات لیلۃالقدر کے برابر
حَدَّثَنَاأَبُو بَكْرِبْنُ نَافِعٍالْبَصْرِيُّ،حَدَّثَنَا مَسْعُودُ بْنُ وَاصِلٍ، عَنْ نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏  مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ، ‏‏‏‏‏‏يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ :جامع ترمذی حدیث نمبر: 758
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو، ان ایام میں سے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان کی ہر رات کا قیام لیلۃ 
القدر کے قیام کے برابر ہے 

عشرہ ذوالحج کے نیک اعمال جہاد سے بھی افضل
  حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمُجَاهِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمُسْلِمٍ الْبَطِينِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِ. قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ:سنن ابو داؤد حدیث نمبر: 2438
عبداللہ بن عباس ؆کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایاان دنوں یعنی عشرہ ذی الحجہ کا نیک عمل اللہ تعالیٰ کو تمام دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہے ، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میںجہاد بھی (اسے نہیں پاسکتا) ؟ آپ  ﷺ نے فرمایاجہاد بھی نہیں، مگر ایسا شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور لوٹا ہی نہیں

میدان عرفات میں مصطفویﷺ تبلیغ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ إِسْرَائِيلَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ الثَّقَفِيُّ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُ نَفْسَهُ فِي الْمَوْسِمِ عَلَى النَّاسِ فِي الْمَوْقِفِ فَيَقُولُ هَلْ مِنْ رَجُلٍ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ فَإِنَّ قُرَيْشًا مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّي۔سنن دارمی حدیث نمبر 1178
نبی اکرم ﷺہر سال حج کے موقع پر میدان عرفات میں لوگوں سے ملتے تھے اور یہ فرمایا کرتے تھے کہ کیا کوئی شخص مجھے اپنے قبیلے کے پاس لے کر جائے گا قریش مجھے اس بات سے روکتے ہیں کہ میں اپنے پروردگار کے کلام کی تبلیغ کروں۔
 
 عرفہ و عرفا ت وجہ تسمیہ مختصر تعارف
عرفہ  ایک مخصوص جگہ کا نام ہے اور یہ زمان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ نویں ذی الحجہ کو عرفہ کا دن کہتے ہیں۔ لیکن  عرفات  جمع کے لفظ کے ساتھ صرف اس مخصوص جگہ ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ جمع اطراف و جوانب کے اعتبار سے ہے۔ عرفات مکہ مکرمہ سے تقریبا ساڑھے پندرہ میل (پچیس کلو میٹر) کے فاصلہ پر واقع ہے یہ ایک وسیع وادی یا میدان ہے جو اپنے تین طرف سے پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے، درمیان میں اس کے شمالی جانب جبل الرحمۃ ہے۔   عرفات کی وجہ تسمیہ کے متعلق بہت اقوال ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم اور حضرت حوا جب جنت سے اتر کر اس دنیا میں آئے تو وہ دونوں سب سے پہلے اسی جگہ ملے۔ اس تعارف کی مناسبت سے اس کا نام عرفہ پڑگیا ہے اور یہ جگہ عرفات کہلائی۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت جبرائیل ؊جب اس جگہ حضرت ابراہیم ؊کو افعال حج کی تعلیم دے رہے تھے تو وہ اس دوران ان سے پوچھتے کہ عرفت (یعنی جو تعلیم میں نے دی ہے) تم نے اسے جان لیا؟ حضرت ابراہیم؊ جواب میں کہتے عرفت (ہاں میں جان لیا) اور آخرکار دونوں کے سوال و جواب میں اس کلمہ کا استعمال اس جگہ کی وجہ تسمیہ بن گیا۔ ان کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں۔   وقوف عرفات یعنی نویں ذی الحجہ کو ہر حاجی کا میدان عرفات میں پہنچنا اس کی ادائیگی حج کے سلسلہ میں ایک سب سے بڑا رکن ہے جس کے بغیر حج نہیں ہوتا، چناچہ حج کے دو رکنوں یعنی طواف الافاضہ اور وقوف عرفات میں وقوف عرفات چونکہ حج کا سب سے بڑا رکن ہے اس لئے اگر یہ ترک ہوگیا تو حج ہی نہیں ہوگا۔

میدان عرفہ میں سواری سے گرنے والا
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَوْقَصَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا:صحیح بخاری حدیث نمبر: 1265 
ایک شخص میدان عرفہ میں (احرام باندھے ہوئے) کھڑا ہوا تھا کہ اپنی سواری سے گرپڑا اور سواری نے انہیں کچل دیا۔ نبی کریم ﷺنے ان کے لیے فرمایا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں انہیں کفن دو اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ انہیں خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ان کا سر چھپاؤ۔ کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔

میدان عرفہ میں اونٹ سے گرنے والا
  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ مِنْ رَاحِلَتِهِ فَأَقْصَعَتْهُ أَوْ قَالَ فَأَقْعَصَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا۔صحیح بخاری حدیث نمبر: 1266
عبداللہ بن عباس ؆نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺکے ساتھ میدان عرفہ میں وقوف کئے ہوئے تھا کہ وہ اپنے اونٹ سے گرپڑا اور اونٹ نے انہیں کچل دیا۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں کا کفن دو، خوشبو نہ لگاؤ اور نہ سر ڈھکو کیونکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انہیں لبیک کہتے ہوئے اٹھائے گا۔

یوم عرفہ کے دن حضورﷺ کا شور سے منع فرمانا
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُوَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ مَوْلَى وَالِبَةَ الْكُوفِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ دَفَعَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَاءَهُ زَجْرًا شَدِيدًا وَضَرْبًا وَصَوْتًا لِلْإِبِلِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَشَارَ بِسَوْطِهِ إِلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِالْإِيضَاعِ أَوْضَعُوا أَسْرَعُوا خِلَالَكُمْ مِنَ التَّخَلُّلِ بَيْنَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا بَيْنَهُمَا:صحیح بخاری حدیث نمبر:1671 
 عبداللہ بن عباس؆ نے بیان کیا کہ عرفہ کے دن (میدان عرفات سے)  وہ نبی کریم ﷺکے ساتھ آ رہے تھے نبی کریم ﷺنے پیچھے سخت شور  (اونٹ ہانکنے کا)  اور اونٹوں کی مار دھاڑ کی آواز سنی تو آپ نے ان کی طرف اپنے کوڑے سے اشارہ کیا اور فرمایا کہ لوگو! آہستگی و وقار اپنے اوپر لازم کرلو،  (اونٹوں کو)  تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔
 
یوم عرفہ تکمیل دین کا دن
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مِسْعَرٍ وَغَيْرِهِ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ لِعُمَرَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ أَنَّ عَلَيْنَا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: ‏‏‏‏الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا‏‏‏‏ لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا. فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي لأَعْلَمُ أَيَّ يَوْمٍ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ، نَزَلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ. سَمِعَ سُفْيَانُ مِنْ مِسْعَرٍ وَمِسْعَرٌ قَيْسًا وَقَيْسٌ طَارِقًا:صحیح بخاری حدیث نمبر: 7268  
ایک یہودی (کعب احبار اسلام لانے سے پہلے)نے عمررضی اللہ عنہ؄سے کہا: اے امیرالمؤمنین! اگر ہمارے یہاں سورة المائدہ کی یہ آیت نازل ہوتی اليوم أکملت لکم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لکم الإسلام دينا‏ کہ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کردیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کرلیا۔ تو ہم اس دن کو عید (خوشی) کا دن بنا لیتے۔ عمر ؄نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی، عرفہ کے دن نازل ہوئی اور جمعہ کا دن تھا۔
 
یوم عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ
و حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی التَّمِيمِيُّ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا عَنْ حَمَّادٍ قَالَ يَحْيَی أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ غَيْلَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَجُلٌ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ کَيْفَ تَصُومُ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَی عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ قَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هَذَا الْکَلَامَ حَتَّی سَکَنَ غَضَبُهُ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ کُلَّهُ قَالَ لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ أَوْ قَالَ لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ قَالَ کَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ وَيُفْطِرُ يَوْمًا قَالَ وَيُطِيقُ ذَلِکَ أَحَدٌ قَالَ کَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا قَالَ ذَاکَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ کَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ قَالَ وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِکَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ وَرَمَضَانُ إِلَی رَمَضَانَ فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ کُلِّهِ صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَی اللَّهِ أَنْ يُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَائَ أَحْتَسِبُ عَلَی اللَّهِ أَنْ يُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ:صحیح مسلم حدیث نمبر: 2746
 ایک آدمی نبی ﷺکی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ آپ ﷺروزے کیسے رکھتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺاس کی بات سے غصہ میں آگئےاور جب حضرت عمر ؄نے آپ کو غصہ کی حالت میں دیکھا تو کہنے لگے (رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا نَعُوذُ بِاللَّهِ ) ہم اللہ تعالیٰ تعالیٰ سے اس کو رب مانتے ہوئے اور اسلام کو دین مانتے ہوئے اور محمد ﷺکو نبی مانتے ہوئے راضی ہیں ہم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ کے غضب سے اور اس کے رسول ﷺکے غضب سے حضرت عمر؄ اپنے اس کلام کو بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺکا غصہ ٹھنڈا ہوگیا تو حضرت عمر ؄نے عرض کیا اے اللہ کے رسول جو آدمی ساری ساری عمر روزے رکھے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ اس نے افطار کیا حضرت عمر ؄نے عرض کیا کہ جو آدمی دو دن روزے رکھے اور ایک دن افطار کرے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا وہ کون ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہو؟ حضرت عمر ؄نے عرض کیا کہ جو آدمی ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا یہ حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں۔ حضرت عمر ؄نے عرض کیا کہ جو آدمی ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں پسند کرتا ہوں کہ مجھے اس کی طاقت ہوتی پھر آپ ﷺ نے فرمایا ہر مہینے تین دن روزے رکھنا اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا پورے ایک زمانہ کے روزے کے برابر ہے اور عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید کرتا ہوں کہ یہ ایک سال پہلے کے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور عاشورہ کے دن روزہ رکھنے سے بھی اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید کرتا ہوں کہ یہ ایک روزہ اس کے ایک سال پہلے کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔

یوم عرفہ کے دن تکبیرات و تہلیل بلند کرنا
و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَيَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ قَالُوا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَدَاةِ عَرَفَةَ فَمِنَّا الْمُکَبِّرُ وَمِنَّا الْمُهَلِّلُ فَأَمَّا نَحْنُ فَنُکَبِّرُ قَالَ قُلْتُ وَاللَّهِ لَعَجَبًا مِنْکُمْ کَيْفَ لَمْ تَقُولُوا لَهُ مَاذَا رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ:صحیح مسلم حدیث نمبر: 3096
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم عرفہ کی صبح کو رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھے تو ہم میں سے کوئی تکبیر کہہ رہا تھا اور ہم میں سے کوئی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہہ رہا تھا باقی ہم تکبیر کہہ رہے تھے راوی نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ ؓ سے کہا واللہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نے ان سے کیوں نہ کہا کہ رسول اللہ کس طرح کرتے تھے۔

یوم عرفہ پر لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کی صدائیں
و حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ الثَّقَفِيِّ أَنَّهُ سَأَلَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ وَهُمَا غَادِيَانِ مِنْ مِنًی إِلَی عَرَفَةَ کَيْفَ کُنْتُمْ تَصْنَعُونَ فِي هَذَا الْيَوْمِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ کَانَ يُهِلُّ الْمُهِلُّ مِنَّا فَلَا يُنْکَرُ عَلَيْهِ وَيُکَبِّرُ الْمُکَبِّرُ مِنَّا فَلَا يُنْکَرُ عَلَيْهِ:صحیح مسلم حدیث نمبر: 3097
حضرت محمد بن ابی بکر ثقفی ؄سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک ؄سے پوچھا جب کہ وہ دونوں منیٰ سے عرفات کی طرف جا رہے تھے کہ تم اس دن یعنی عرفہ کے دن میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ کیا کرتے تھے؟ حضرت انس ؄فرمانے لگے کہ کوئی تو ہم میں سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ پڑھتا تھا اور کوئی بھی اس پر نکیر نہیں کرتا تھا اور کوئی ہم میں سے اَللَّهُ أَکْبَرُ کہتا تھا تو اس پر بھی کوئی نکیر نہیں کرتا تھا۔

میدان عرفات میں لبیک اللہم لبیک 
و حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَائٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَکْرٍ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ غَدَاةَ عَرَفَةَ مَا تَقُولُ فِي التَّلْبِيَةِ هَذَا الْيَوْمَ قَالَ سِرْتُ هَذَا الْمَسِيرَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ فَمِنَّا الْمُکَبِّرُ وَمِنَّا الْمُهَلِّلُ وَلَا يَعِيبُ أَحَدُنَا عَلَی صَاحِبِهِ:صحیح مسلم حدیث نمبر: 3098
حضرت محمد بن ابی بکر ؄نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس بن مالک ؄ سے عرض کیاکہ آپ عرفہ کی صبح تلبیہ پڑھنے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں اور آپ ﷺکے صحابہ اس سفر میں نبی ﷺکے ساتھ تھے تو ہم میں سے کوئی تکبیر کہہ رہا تھا اور ہم میں سے کوئی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہہ رہا تھا اور ہم میں سے کوئی بھی اپنے کسی ساتھی کو منع نہیں کرتا تھا۔

یوم عرفہ کے موقع پر اللہ کا اپنے بندوں پر فخر فرمانا
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَی قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُکَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ يُونُسَ بْنَ يُوسُفَ يَقُولُ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ يَوْمٍ أَکْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنْ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمْ الْمَلَائِکَةَ فَيَقُولُ مَا أَرَادَ هَؤُلَائِ:صحیح مسلم حدیث نمبر: 3288
 حضرت عائشہ ؅فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اللہ عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن اپنے بندوں کو دوزخ سے آزاد نہیں کرتا اور اللہ اپنے بندوں کے 
قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ سارے بندے کس ارادہ سے آئے ہیں؟

یوم عرفہ کے موقع پر حضورﷺ کا خطاب فرمانا
 حَدَّثَنَا هنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ هَنَّادٌ:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِالْمَجِيدِ أَبِي عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ الْعَدَّاءِ بْنِ هَوْذَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ 
يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمَ عَرَفَةَ عَلَى بَعِيرٍ قَائِمٌ فِي الرِّكَابَيْنِ. قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ رَوَاهُ ابْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ وَكِيعٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا قَالَ هَنَّادٌ:سنن ابوداؤدحدیث نمبر: 1917
خالد بن عداء بن ہوذہ ؄کہتے ہیں عرفہ کے دن میں نے رسول اللہ ﷺکو ایک اونٹ پر دونوں رکابوں کے درمیان کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دیتے دیکھا۔

یوم عرفہ یوم نحر ایام تشریق عید کے دن
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَهْبٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ. وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْمُوسَى بْنِ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ:سنن ابوداؤدحدیث نمبر: 2419
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یوم عرفہ یوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید ہے، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں ۔
 
یوم عرفہ کی شب اچانک سانپ کا نکلنا
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ عَرَفَةَ الَّتِي قَبْلَ يَوْمِ عَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا حِسُّ الْحَيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اقْتُلُوهَافَدَخَلَتْ شَقَّ جُحْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْخَلْنَا عُودًا فَقَلَعْنَا بَعْضَ الْجُحْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذْنَا سَعَفَةً فَأَضْرَمْنَا فِيهَا نَارًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَقَاهَا اللَّهُ شَرَّكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَوَقَاكُمْ شَرَّهَا:سنن نسائی حدیث نمبر: 2887
عبداللہ بن مسعود ؄کہتے ہیں کہ ہم عرفہ کی رات جو عرفہ کے دن سے پہلے ہوتی ہے رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھے، اچانک سانپ کی سرسراہٹ محسوس ہوئی تو رسول اللہﷺنے فرمایا۔اسے مارو لیکن وہ ایک سوراخ کے شگاف میں داخل ہوگیا۔ تو ہم نے اس میں ایک لکڑی گھسیڑ دی۔ اور سوراخ کا کچھ حصہ ہم نے اکھیڑ دیا۔پھر ہم نے کھجور کی شاخ لی اور اس میں آگ بھڑکا دی، تو رسول اللہ  ﷺنے فرمایا۔اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے شر سے اور تمہیں اس کے شر سے بچا لیا ۔ 
 
یوم عرفہ پر حضورﷺ کا سرخ اونٹ پر سوار ہو کر خطبہ فرمانا 
 أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُبَيْطٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ بِعَرَفَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ:سنن نسائی حدیث نمبر: 3010
نبیط؄ کہتے ہیں کہ میں نے عرفہ کے دن رسول اللہ ﷺکو نماز سے پہلے ایک سرخ اونٹ پر سوار ہو کر خطبہ دیتے دیکھا۔

 یوم عرفہ پر اطمینان لازم پکڑنے کا حکم
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ الْوَضَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ أُمَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي غَطَفَانَ بْنِ طَرِيفٍ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏شَنَقَ نَاقَتَهُ حَتَّى أَنَّ رَأْسَهَا لَيَمَسُّ وَاسِطَةَ رَحْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يَقُولُ لِلنَّاسِ:‏‏‏‏ السَّكِينَةَ السَّكِينَةَ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ:سنن نسائی حدیث نمبر: 3022
ابوغطفان بن طریف سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس؄ کو کہتے سنا جب رسول اللہﷺ(عرفات سے  )مزدلفہ کے لیے چلے، تو آپ نے اپنی اونٹنی کی مہار کھینچی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کی لکڑی سے چھونے لگا، آپ عرفہ کی شام میں (مزدلفہ کے لیے )چلتے وقت لوگوں سے فرما رہے تھے: اطمینان و سکون کو لازم پکڑو، اطمینان و سکون کو لازم پکڑو ۔ 
 
یوم عرفہ پر بھیک مانگنے کی مذمت فرمانا
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ السَّلُولِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَأَخَذَ بِطَرَفِ رِدَائِهِ فَسَأَلَهُ إِيَّاهُ فَأَعْطَاهُ وَذَهَبَ فَعِنْدَ ذَلِكَ حَرُمَتِ الْمَسْأَلَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِيُثْرِيَ بِهِ مَالَهُ كَانَ خُمُوشًا فِي وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَرَضْفًا يَأْكُلُهُ مِنْ جَهَنَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ شَاءَ فَلْيُقِلَّ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُكْثِرْ .حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحِيمِ بْنِ سُلَيْمَانَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ:جامع ترمذی حدیث نمبر: 653
حبشی بن جنادہ سلولی ؄کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺکو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا آپ عرفہ میں کھڑے تھے، آپ کے پاس ایک اعرابی آیا اور آپ کی چادر کا کنارا پکڑ کر آپ سے مانگا، آپ نے اسے دیا اور وہ چلا گیا، اس وقت مانگنا حرام ہوا، تو رسول اللہﷺنے فرمایا: کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں نہ کسی تندرست صحیح سالم آدمی کے لیے سوائے جان لیوا فقر والے کے اور کسی بھاری تاوان میں دبے شخص کے۔ اور جو لوگوں سے اس لیے مانگے کہ اس کے ذریعہ سے اپنا مال بڑھائے تو یہ مال قیامت کے دن اس کے چہرے پر خراش ہوگا۔ اور وہ جہنم کا ایک گرم پتھر ہوگا جسے وہ کھا رہا ہوگا، تو جو چاہے اسے کم کرلے اور جو چاہے زیادہ کرلے ۔
یوم عرفہ ہی یوم مشہود ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  الْيَوْمُ الْمَوْعُودُ:‏‏‏‏ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَوْمُ الْمَشْهُودُ:‏‏‏‏ يَوْمُ عَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّاهِدُ:‏‏‏‏ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ عَلَى يَوْمٍ أَفْضَلَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ يَدْعُو اللَّهَ بِخَيْرٍ إِلَّا اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَسْتَعِيذُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ الْأَسَدِيُّ، عَنْمُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، ‏‏‏‏‏‏نَحْوَهُ. وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ الرَّبَذِيُّ يُكْنَى أَبَا عَبْدِ الْعَزِيزِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَالثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مَنِ الْأَئِمَّةِ عَنْهُ.ترجمہ:جامع ترمذی حدیث نمبر: 3339
 رسول اللہﷺنے فرمایااليوم الموعودسے مراد قیامت کا دن ہے، اور واليوم المشهودسے مراد عرفہ کا دن اور شاہدسے مراد جمعہ کا دن ہے، اور جمعہ کے دن سے افضل کوئی دن نہیں ہے جس پر سوج کا طلوع و غروب ہوا ہو، اس دن میں ایک ایسی گھڑی  (ایک ایسا وقت)  ہے کہ اس میں جو کوئی بندہ اپنے رب سے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو اللہ اس کی دعا قبول کرلیتا ہے، اور اس گھڑی میں جو کوئی مومن بندہ کسی چیز سے پناہ چاہتا ہے تو اللہ اسے اس سے بچا لیتا اور پناہ دے دیتا ہے۔

 یوم عرفہ کی شام کی مسنون دعا  
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ وَكَانَ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَغَرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ أَكْثَرُ مَا دَعَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ فِي الْمَوْقِفِ:‏‏‏‏  اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كَالَّذِي نَقُولُ وَخَيْرًا مِمَّا نَقُولُ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ لَكَ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي وَإِلَيْكَ مَآبِي وَلَكَ رَبِّ تُرَاثِي، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَوَسْوَسَةِ الصَّدْرِ وَشَتَاتِ الْأَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَجِيءُ بِهِ الرِّيحُ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ.ترجمہ:جامع ترمذی حدیث نمبر: 3520
علی بن ابی طالب ؄کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺوقوف عرفہ کے دوران عرفہ کی شام اکثر جو دعا مانگا کرتے تھے وہ یہ تھی: « اللَّهُمَّ لَكَ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي وَإِلَيْكَ مَآبِي وَلَكَ رَبِّ تُرَاثِي، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَوَسْوَسَةِ الصَّدْرِ وَشَتَاتِ الْأَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَجِيءُ بِهِ الرِّيحُ۔اے اللہ! تیرے لیے ہی ہیں سب تعریفیں جیسی کہ تو نے ہمیں بتائی ہیں اور اس سے بہتر جیسی کہ ہم تیری تعریف کرسکتے ہیں، اے اللہ! تیرے لیے ہی ہے میری صلاۃ، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت، اور تیری ہی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، اے میرے رب! تیرے لیے ہی ہے میری میراث، اے اللہ میں عذاب قبر سے، سینے کے وسوسہ سے اور متفرق و پراگندہ کام سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر اس شر سے جسے ہوا لے کر آتی ہے ۔
 
یوم عرفہ کے موقع پر حضورﷺ اور دیگر انبیاء کی دعا
حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو مُسْلِمُ بْنُ عَمْرٍو الْحَذَّاءُ الْمَدِينِيُّ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ، عَنْعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏  خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ،‏‏‏‏ لَهُ الْمُلْكُ،‏‏‏‏ وَلَهُ الْحَمْدُ،‏‏‏‏ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَحَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ،‏‏‏‏ وَهُوَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَنْصَارِيُّ الْمَدَنِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ:جامع ترمذی حدیث نمبر: 3585
 نبی اکرم ﷺنے فرمایا۔سب سے بہتر دعا عرفہ والے دن کی دعا ہے اور میں نے اب تک جو کچھ کہا ہے اور مجھ سے پہلے جو دوسرے نبیوں نے کہا ہے ان میں سب سے بہتر دعا یہ ہے: «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ،‏‏‏‏ لَهُ الْمُلْكُ،‏‏‏‏ وَلَهُ الْحَمْدُ،‏‏‏‏ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ .»  اللہ واحد کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے  (ساری کائنات کی)  بادشاہت ہے، اسی کے لیے ساری تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔  
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ هُوَ الْأَنْمَاطِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَا
 لَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏  يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا، ‏‏‏‏‏‏كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ،‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَهَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَزَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ قَدْ رَوَى عَنْهُ سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ:جامع ترمذی حدیث نمبر: 3786 
جابر بن عبداللہ ؄کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺکو حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن دیکھا، آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہو کر خطبہ دے رہے تھے، میں نے آپ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا۔اے لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ایک اللہ کی کتاب ہے دوسرے میری «عترت» یعنی اہل بیت ہیں 

عیدین اور یوم عرفہ پر غسل کا حکم
 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْخَطْمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُقْبَةَ بْنِ الْفَاكِهِ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ الْفَاكِهِ بْنِ سَعْدٍ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَانَ يَغْتَسِلُ يَوْمَ الْفِطْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَوْمَ النَّحْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَوْمَ عَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الْفَاكِهُ:‏‏‏‏ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالْغُسْلِ فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ:سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 1316
فاکہ بن سعد؄جنہیں رسول اللہ ﷺسے شرف صحبت حاصل تھا کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺعید الفطر، عید الاضحی اور عرفہ کے دن غسل فرمایا کرتے تھے اور فاکہ ؓ اپنے اہل و عیال کو ان دنوں میں غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔

امت کی مغفرت اور شیطان کے رسوا ہونے پر حضور کا مسکرانا
حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقَاهِرِ بْنُ السَّرِيِّ السُّلَمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كِنَانَةَ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ السُّلَمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا لِأُمَّتِهِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ بِالْمَغْفِرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأُجِيبَ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ مَا خَلَا الظَّالِمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي آخُذُ لِلْمَظْلُومِ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيْ رَبِّ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ شِئْتَ أَعْطَيْتَ الْمَظْلُومَ مِنَ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَغَفَرْتَ لِلظَّالِمِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُجَبْ عَشِيَّتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَصْبَحَ بِالْمُزْدَلِفَةِ أَعَادَ الدُّعَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَأُجِيبَ إِلَى مَا سَأَلَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ تَبَسَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ:‏‏‏‏ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ هَذِهِ لَسَاعَةٌ مَا كُنْتَ تَضْحَكُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَمَا الَّذِي أَضْحَكَكَ، ‏‏‏‏‏‏أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ عَدُوَّ اللَّهِ إِبْلِيسَ لَمَّا عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدِ اسْتَجَابَ دُعَائِي وَغَفَرَ لِأُمَّتِي، ‏‏‏‏‏‏أَخَذَ التُّرَابَ فَجَعَلَ يَحْثُوهُ عَلَى رَأْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَدْعُو بِالْوَيْلِ وَالثُّبُورِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَضْحَكَنِي مَا رَأَيْتُ مِنْ جَزَعِهِ:سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 3013
باس بن مرداس سلمی ؄سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے عرفہ کی شام کو اپنی امت کی مغفرت کی دعا کی، تو آپﷺ کو جواب ملا کہ میں نے انہیں بخش دیا، سوائے ان کے جو ظالم ہوں، اس لیے کہ میں اس سے مظلوم کا بدلہ ضرور لوں گا، آپ ﷺنے فرمایا:  اے رب! اگر تو چاہے تو مظلوم کو جنت دے اور ظالم کو بخش دے ، لیکن اس شام کو آپ کو جواب نہیں ملا، پھر جب آپ ﷺنے مزدلفہ میں صبح کی تو پھر یہی دعا مانگی، آپ کی درخواست قبول کرلی گئی، تو آپ ﷺ ہنسے یا مسکرائے، پھر آپ سے ابوبکرو عمر ؇نے عرض کیا: ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یہ ایسا وقت ہے کہ آپ اس میں ہنستے نہیں تھے تو آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟ اللہ آپ کو ہنساتا ہی رہے، آپ ﷺ نے فرمایا۔اللہ کے دشمن ابلیس کو جب معلوم ہوا کہ اللہ نے میری دعا قبول فرما لی ہے، اور میری امت کو بخش دیا ہے، تو وہ مٹی لے کر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور کہنے لگا: ہائے خرابی، ہائے تباہی! جب میں نے اس کا یہ تڑپنا دیکھا تو مجھے ہنسی آگئی
  
میدان عرفہ مقام نعمان میں اولاد آدم سے عہد لیا جانا
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَخَذَ اﷲُ الْمِیْثَاقَ مِنْ ظَھْرِ اٰدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِیْ عَرَفَۃَ فَاَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہٖ کُلَّ ذُرِّیَّۃِ ذَرَأَھَا فَنَثَرَھُمْ بَیْنَ یَدَیْہِ کَالذَّرِّثُمَّ کُلَّمَھُمْ قُبُلًا قَالَ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غَافِلِیْنَ اَوْتَقُوْلُوْا اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِھِمْ اَفَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِوُنَ:مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 117
  سرکار دوعالم ﷺنے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے میدان عرفہ کے قریب مقام نعمان میں آدم کی اس اولاد سے جو ان کی پشت سے نکلی تھی عہد لیا چناچہ آدم کی پشت سے ان کی ساری اولاد کو نکالا جن کو (ازل سے ابد) تک پیدا کرنا تھا اور ان سب کو چیونیٹوں کی طرح آدم کے سامنے پھیلا دیا پھر اللہ نے ان سے روبرو گفتگو کی، فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ آدم کی اولاد نے کہا، بیشک آپ ہمارے رب ہیں پھر اللہ نے فرمایا  یہ شہادت میں نے تم سے اس لئے لی ہے کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے غافل و ناواقف تھے یا تم یہ نہ کہہ دو کہ ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے شرک کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے ہم نے ان کی اطاعت کی تھی، کیا تو باطل پرستوں کے اعمال کے سبب ہلاک 
کرتا ہے۔
 
حضرت علی ؄کا عرفہ کے دن لوگوں سے مانگنے والے کو درہ مارنا
وعن علي رضي الله عنه أنه سمع يوم عرفة رجلا يسأل الناس فقال : أفي هذا اليوم : وفي هذا المكان تسأل من يغر الله ؟ فخفقه بالدرة  :مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 1851
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عرفہ کے دن ایک شخص کو لوگوں سے مانگتے دیکھا تو اس سے فرمایا کہ بدنصیب آج کے روز اس جگہ پر تو اللہ کے علاوہ دوسروں سے مانگ رہا ہے پھر انہوں نے اس شخص کو درہ سے مارا۔

یوم عرفہ شیطان کی ذلت رسوائی کا دن
وعن طلحة بن عبيد الله بن كريز أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال :  ما رئي الشيطان يوما هو فيه أصغر ولا أدحر ولا أحقر ولا أغيظ منه في يوم عرفة وما ذاك إلا لما يرى من تنزل الرحمة وتجاوز الله عن الذنوب العظام إلا ما رئي يوم بدر  . فقيل : ما رئي يوم بدر ؟ قال :  فإنه قد رأى جبريل يزع الملائكة  . رواه مالك مرسلا وفي شرح السنة بلفظ المصابيح:مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 2642
 رسول کریم ﷺ نے فرمایا  ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں شیطان کو اتنا زیادہ ذلیل و راندہ اور اتنا زیادہ حقیر پر غیظ دیکھا گیا ہو جتنا کہ وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ  اللہ کی نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے۔ ہاں بدر کے دن بھی شیطان کو ایسا ہی دیکھا گیا تھا  چناچہ (بدر کے دن) شیطان نے دیکھا تھا کہ حضرت جبرائیل فرشتوں کی صفوں کو ترتیب دے رہے تھے۔

یوم عرفہ پر اللہ رب العزت کا آسمان دنیا پراپنی شان کے مطابق نزول فرمانا
وعن جابر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :  إذا كان يوم عرفة إن الله ينزل إلى السماء الدنيا فيباهي بهم الملائكة فيقول : انظروا إلى عبادي أتوني شعثا غبرا ضاجين من كل فج عميق أشهدكم أني قد غفرت لهم فيقول الملائكة : يا رب فلان كان يرهق وفلان وفلانة قال : يقول الله عز و جل : قد غفرت لهم  . قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :  فما من يوم أكثر عتيقا من النار من يوم عرفة  . رواه في شرح السنة:مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 2643
 رسول کریم ﷺ نے فرمایا عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ۔اور پھر فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ذرا میرے بندوں کی طرف تو دیکھو، یہ میرے پاس پراگندہ بال، گرد آلود اور لبیک و ذکر کے ساتھ آوزایں بلند کرتے ہوئے دور، دور سے آئے ہیں، میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا، (یہ سن کر) فرشتے کہتے ہیں کہ پروردگار ان میں فلاں شخص وہ بھی ہے جس کی طرف گناہ کی نسبت کی جاتی ہے اور فلاں شخص اور فلاں عورت بھی ہے جو گنہ گار ہیں آنحضرت ﷺنے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے انہیں بھی بخش دیا۔ پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں یوم عرفہ کی برابر لوگوں کو آگ سے نجات کا پروانہ عطا کیا جاتا ہو۔

ذرہ برابر ایمان پر عرفہ کے دن مغفرت کی بشارت
لا يبقى يوم عرفة خلق من خلق الله عز وجل في قلبه مثقال ذرة من الإيمان إلا غفر الله له، قيل: يا رسول الله لأهل عرفات أم للناس عامة؟ قال: لا بل للناس عامة. "ابن أبي الدنيا في فضل عشر ذي الحجة وابن النجار عن ابن عمر" وفيه الوليد بن القاسم بن الوليد، قال ابن حبان: لا يحتج به.کنزالعمال:جلد سوم:حدیث نمبر 311
اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی مخلوق کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو، عرفہ کے روز (نویں ذی الحجہ کو) اللہ رب العزت اس کی ضرور مغفرت فرما دیتے ہیں، کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺیہ بات صرف عرفات والوں کے لیے ہے یا تمام انسانوں کے لیے عام ہے ؟ تو نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا کہ یہ بات صرف عرفات والوں کے لیے خاص نہیں بلکہ عمومی طور پر تمام انسانوں کے لیے ہے۔ 

عرفہ کے دن ایک درہم کا ثواب دس لاکھ درہم 
عن علي قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة والناس مقبلون وهو يقول: مرحبا بوفد الله الذين إذا سألوا الله أعطاهم واستجاب دعاءهم ويضاعف للرجل الواحد من نفقة الدرهم الواحد ألف ألف ضعف."الديلمي".      کنزالعمال:جلد سوم:حدیث نمبر 608 
حضرت علی ؄سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ عرفہ (کے روز میدان عرفات) میں کھڑے تھے اور لوگ آپ کی طرف متوجہ تھے اور آپﷺارشاد فرما رہے تھے : مرحبا  ہو اللہ کے وفد (حاجیوں) کو، جب وہ مانگتے ہیں تو اللہ ان کو عطا کرتا ہے اور ان کی دعا کو قبول فرماتا ہے اور آدمی جب (اپنے لیے بھی) ایک درہم خرچ کرتا ہے تو اس کا ثواب دس لاکھ درہم تک بڑھا دیا جاتا ہے۔

زمانہ جاہلیت میں عرفات کے وقوف پر جنات کا خوف
عن عمرو بن معد يكرب قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم لبيك اللهم لبيك، اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك، وإن كنا لنمنع الناس أن يقفوا بعرفة وذلك في الجاهلية فأمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن خلوا بينهم وبين عرفة وإن كان موقفهم ببطن محسر عشية عرفة فرقا من أن يخطفنا الجن فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: أجيزوا بطن عرنة فإنما هم إذا أسلموا إخوانكم. "يعقوب بن سفيان والشاشي والبغوي وابن منده كر".کنزالعمال:جلد سوم:حدیث نمبر 637 
عمرہ بن معد یکرب سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اکرم ﷺنے (تلبیہ یوں) سکھایا : لبیک اللھم لبیک، اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ ” حاضر ہیں ہم اے اللہ ! ہم حاضر ہیں، اے اللہ ! ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں، تیرا کوئی شریک نہیں، ہم حاضر ہیں، بیشک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لیے ہیں اور ساری بادشاہی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔ “ عمرو بن معدیکرب فرماتے ہیں : ہم جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کو عرفات کے میدان میں کھڑا ہونے سے روکتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں ہمیں جن نہ اچک لیں ۔ تو رسول اکرم ﷺنے ہمیں ارشاد فرمایا : لوگوں کو (میدان عرفات) عرفہ میں جانے کا راستہ چھوڑ دو خواہ وہ بطن محسر میں عرفہ کی رات ٹھہریں اور ارشاد فرمایا بطن عرفہ کو عبور کرلو جن جب مسلمان ہوگئے ہیں تو وہ اب تمہارے بھائی بن گئے ہیں۔ 

میدان عرفہ میں حضور ﷺکی خصوصی دعا
 عن بشر بن قدامة الضبابي قال: أبصرت عيناي حبي رسول الله صلى الله عليه وسلم واقفا بعرفات مع الناس على ناقة له حمراء قصواء تحته قطيفة بولانية وهو يقول: اللهم اجعلها حجة غير رياء ولا هباء ولا سمعة، والناس يقولون: هنا رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن خزيمة والبارودي وابن مندة وأبو نعيم".کنزالعمال:جلد سوم:حدیث نمبر 776 
 بشر بن قدامۃ الضبابی؄ سے مروی ہے کہ میری آنکھیں میرے محبوب حضور اکرم ﷺکو لوگوںکے ساتھ میدان عرفات میں دیکھ رہی ہیں، آپﷺاپنی قصواء نامی سرخ اونٹنی پر سوار ہیں۔ آپ کے نیچے بولانی چادر (اونٹنی پر) پڑی ہوئی ہے۔ اور آپﷺ دعا فرمار ہے ہیں۔ اے اللہ ! اس حج کو بغیر ریا والا کردے، اور اس کو مقبول فرما اور اس میں شہرت اور دکھلاوانہ آنے دے۔ جبکہ لوگ کہہ رہے ہیں : ھنا رسول اللہﷺ رسول اللہﷺیہاں ہیں۔

اللہ رب العزت کا اہل عرفات پرنظر رحمت فرمانا 
عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لبلال عشية عرفة: ناد في الناس لينصتوا، فنادى الناس، أن أنصتوا واستمعوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله تعالى قد تطول في جمعكم هذا فوهب مسيئكم لمحسنكم، وأعطى محسنكم ما سأل، فادفعوا على بركة الله وقال: إن الله باهى ملائكته بأهل عرفة عامة وباهى بعمر بن الخطاب خاصة. "عساكر"کنزالعمال:جلد سوم:حدیث نمبر 778 
ابن عمر؄ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے عرفہ کی رات بلال؄ کو فرمایا : لوگوں کو پکارو کہ چپ ہوجائیں۔ چنانچہ حضرت بلال ؄نے لوگوں میں آواز لگائی : چپ ہوجاؤ اور بات سنو ۔ پھر رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس مجمع پر عنایت و توجہ فرمائی ہے، پس تمہاری برائیوں کو اچھائیوں سے بدل دیا اور ہر اچھائی والے کو جو وہ سوال کرے عطا فرمایا ہے پس اللہ کی برکت کے ساتھ (عرفات کی طرف) کوچ کرو۔ نیز فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ اہل عرفہ کے ساتھ ملائکہ پر عمومی فخر فرماتا ہے اور عمر (رض) کے ساتھ ملائکہ پر خصوصی فخر فرماتا ہے۔
 
جبرئیل میکائیل اسرافیل خضرکی یوم عرفہ پر ملاقات
عن علي قال: يجتمع في كل يوم عرفة بعرفات جبريل وميكائيل وإسرافيل والخضر فيقول جبريل: ما شاء الله لا قوة إلا بالله، ويرد عليه ميكائيل ويقول: ما شاء الله كل نعمة من الله، فيرد عليهما إسرافيل فيقول: ما شاء الله الخير كله بيد الله، فيرد عليهم الخضر فيقول: ما شاء الله لا يدفع السوء إلا الله، ثم يتفرقون، فلا يجتمعون إلا إلى قابل في مثل ذلك اليوم. "ابن النجار۔کنزالعمال:جلد سوم:حدیث نمبر 785 
حضرت علی ؄سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : عرفات میں ہر عرفہ کو جبرائیل ؈ میکائیل ؈ اسرافیل ؈اور خضر؈ جمع ہوتے ہیں۔ جبرائیل؈فرماتے ہیں : ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ، جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور کسی نیکی کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے میکائیل ؈اس کا جواب دیتے ہیں : ماشاء اللہ کل نعمۃ من اللہ، ماشاء اللہ ہر نعمت اللہ کی طرف سے ہے اسرافیل ؈دونوں کو جواب دیتے ہیں : ماشاء اللہ الخیر کلہ بیداللہ ماشاء اللہ لا یدفع السوء الا باللہ، ماشاء اللہ کوئی برائی اللہ کی مدد کے بغیر دور نہیں ہوسکتی پھر سب متفرق ہوجاتے ہیں پھر اگلے سال اسی دن سے پہلے جمع نہیں ہوتے۔


Comments

Popular posts from this blog

شرح تعبیر و خواب(سید ظہیر حسین شاہ رفاعی) Sharah Tabeer o Khawab by Syed Zaheer Hussain Shah Refai

#Fitna#Dajjal فتنہ دجال