Islam ar Wabaai Amraaz by Syed Zaheer Hussain Shah Refai اسلام اور وبائی امراض مؤلف سید ظہیر حسین شاہ رفاعی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہم صلی علی محمد و علی آلہ وصحبہ وسلم
اسلام اور وبائی امراض کے حوالے سے احادیث کی روشنی میں یہ کتاب عارضی نشر کی جار ہی ہے۔
وَاِذَا مَرِضۡتُ فَهُوَ يَشۡفِيۡنِ
ترجمہ:
اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہی مجھے شفاء دیتا ہے۔
سورہ شعراء آیت نمبر 80
٭بیماریوں کے روحانی فوائد
٭زمین میں اللہ کے قیدی
٭سال میں وبا نازل ہونے کی رات
٭شہدا ء کی سات قسمیں
٭طاعون کی موت عذاب یا شہادت؟
اگر آپ اس کتاب میں کسی مقام پر کسی بھی قسم کی غلطی دیکھیں مہربانی فرماکر 03044653433 نمبر پر وٹس ایپ فرمائیں۔تاکہ ہارڈ کاپی میں وہ غلطی شامل نہ ہو۔پروف ریڈنگ کے فرائض سر انجام دے کر آپ بھی اپنے لیے صدقہ جاریہ کا دروازہ کھولیں۔اس کتاب کو خو د بھی پڑھیں ۔اپنے عزیزواقارب دوست احباب و دیگر گروپس میں صدقہ جاریہ کے طور پر اس کتاب کو شئیر فرمائیں
سید ظہیر حسین شاہ رفاعی
رفاعی اسلامک ریسرچ سینٹر
بیماری کے روحانی فوائد
میں
اپنے ملک میں تھا کہ یکایک ہمارے لیے جھنڈے اور پرچم لہرائے گئے تو میں نے پوچھا: یہ
کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہﷺ کا پرچم ہے، تو میں آپ کے پاس آیا، آپﷺ
ایک درخت کے نیچے ایک کمبل پر جو آپ کے لیے بچھایا گیا تھا تشریف فرما تھے، اور آپﷺ
کے اردگرد آپ کے اصحاب اکٹھا تھے، میں بھی جا کر انہیں میں بیٹھ گیا ۔
پھر
رسول اللہﷺنے بیماریوں کا ذکر فرمایا۔جب مومن بیمار پڑتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کو
اس کی بیماری سے عافیت بخشتا ہے تو وہ بیماری اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی
ہے اور آئندہ کے لیے نصیحت، اور جب منافق بیمار پڑتا ہے پھر اسے عافیت دے دی جاتی
ہے تو وہ اس اونٹ کے مانند ہے جسے اس کے مالک نے باندھ رکھا ہو پھر اسے چھوڑ دیا ہو،
اسے یہ نہیں معلوم کہ اسے کس لیے باندھا گیا اور کیوں چھوڑ دیا گیا ۔ آپ ﷺ کے اردگرد
موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! بیماریاں کیا ہیں؟
اللہ
کی قسم میں کبھی بیمار نہیں ہوا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا۔تو اٹھ جا، تو ہم میں سے نہیں
ہے ۔عامر کہتے ہیں۔ ہم لوگ بیٹھے ہی تھے کہ ایک کمبل پوش شخص آیا جس کے ہاتھ میں کوئی
چیز تھی جس پر کمبل لپیٹے ہوئے تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں نے آپ کو
دیکھا تو آپ کی طرف آ نکلا، راستے میں درختوں کا ایک جھنڈ دیکھا اور وہاں چڑیا کے
بچوں کی آواز سنی تو انہیں پکڑ کر اپنے کمبل میں رکھ لیا، اتنے میں ان بچوں کی ماں
آ گئی، اور وہ میرے سر پر منڈلانے لگی، میں نے اس کے لیے ان بچوں سے کمبل ہٹا دیا
تو وہ بھی ان بچوں پر آ گری، میں نے ان سب کو اپنے کمبل میں لپیٹ لیا، اور وہ سب میرے
ساتھ ہیں، آپﷺ نے فرمایا: ان کو یہاں رکھو
، میں نے انہیں رکھ دیا، لیکن ماں نے اپنے بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑا، تب رسول اللہﷺ
نے اپنے اصحاب سے فرمایا۔
کیا
تم اس چڑیا کے اپنے بچوں کے ساتھ محبت کرنے پر تعجب کرتے ہو؟ ، صحابہ نے عرض کیا: ہاں،
اللہ کے رسول! آپ ﷺنے فرمایا: قسم ہے اس ذات
کی جس نے مجھے سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ
محبت رکھتا ہے جتنی یہ چڑیا اپنے بچوں سے رکھتی ہے، تم انہیں ان کی ماں کے ساتھ لے
جاؤ اور وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے انہیں لائے ہو ، تو وہ شخص انہیں واپس چھوڑ آیا۔
ابوداود رقم 3089
انسان کے چاروں طرف بیماریاں
نبی
اکرم ﷺ نے ایک چوکور لکیر کھینچی، اور اس کے بیچ میں ایک لکیر کھینچی، اور اس بیچ والی
لکیر کے دونوں طرف بہت سی لکیریں کھینچیں، ایک لکیر چوکور لکیر سے باہر کھینچی اور
فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ صحابہ
کرام نے عرض
کیا۔ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ درمیانی لکیر انسان ہے، اور اس کے چاروں طرف
جو لکیریں ہیں وہ عوارض ( بیماریاں ) ہیں، جو اس کو ہر طرف سے ڈستی یا نوچتی اور کاٹتی
رہتی ہیں، اگر ایک سے بچتا ہے تو دوسری میں مبتلا ہو جاتا ہے، چوکور لکیر اس کی عمر
ہے، جس نے احاطہٰ کر رکھا ہے اور باہر والی لکیر اس کی آرزو ہے ۔ابن ماجہ رقم
4231
بیماریاں گناہ کا کفارہ
سیدنا
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا۔ جو بیماریاں ہمیں لاحق ہوتی ہیں، ان کے بارے میں
آپ کا کیا خیال ہے؟ آپﷺنے فرمایا۔ یہ گناہوں کا کفارہ بننے والی ہیں۔ میرے باپ نے
کہا۔اگرچہ وہ بیماری معمولی ہو؟ آپ ﷺ فرمایا: اگرچہ وہ کانٹا ہو یا اس سے بڑی کوئی
چیز۔ یہ سن کر میرے باپ نے اپنے حق میں یہ بد دعا کر دی کہ اس کی موت تک بخار اس سے
جدا نہ ہو، لیکن وہ بخار اس کو حج، عمرے، جہاد فی سبیل اللہ اور باجماعت فرضی نماز
سے مشغول نہ کر دے، پس اس کے بعد جس انسان نے میرے باپ کو چھوا، بخار کی حرارت پائی،یہاں
تک کہ وہ فوت ہو گئے۔مسند احمد رقم 9372
زمین میں اللہ کا قیدی
سیدنا
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا۔ جس آدمی کو اسلام کی چالیس سال
عمر دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس سے تین قسم کی بیماریاں دور کر دیتا ہے، جنون، کوڑھ
اور پھلبہری۔
جب
آدمی پچاس سال تک پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر حساب کو آسان کر دیتا ہے، جب
اس کی عمر ساٹھ برس ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی پسند کے مطابق اپنی طرف رجوع
کرنے کی توفیق دیتا ہے، پھر جب وہ ستر سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اور اہل آسمان
اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔جب اس کی عمر اسی سال ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں
قبول کر لیتا ہے۔ اور اس کی برائیوں سے تجاوز کر دیتا ہے، پھر جب اس کی عمر نوے برس
ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ اور اس کا یہ نام
رکھ دیا ہے کہ فلاں آدمی زمین میں اللہ تعالیٰ کا قیدی ہے اور اس کے گھر والوں کے
حق میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔مسند احمد رقم 9833
بیماریاں گناہوں کا کفارہ مستقبل میں عبرت
رسول
اللہﷺنے امراض (اور ان کے ثواب) کا ذکر کیا تو فرمایا ۔جب مومن کو کوئی بیماری لاحق
ہوتی ہے اور پھر اللہ عزوجل اسے اس سے عافیت و صحت عطا فرما دیتا ہے تو وہ (مرض) اس
کے سابقہ گناہوں کا کفارہ اور مستقبل کے بارے میں وعظ و نصیحت بن جاتی ہے ، اور جب
منافق بیمار ہوتا ہے۔ پھر اسے عافیت عطا کر دی جاتی ہے۔ تو وہ اس اونٹ کی طرح ہوتا
ہے۔ جسے اس کے گھر والوں نے باندھ رکھا ہو۔ اور پھر انہوں نے اسے چھوڑ دیا ہو اسے پتہ
نہیں ہوتا ۔کہ انہوں نے اسے کیوں باندھا تھا اور کیوں چھوڑا ہے ۔ کسی شخص نے عرض کیا
۔اللہ کے رسول ! بیماریاں کیا ہوتی ہیں ؟ اللہ کی قسم ! میں تو کبھی بیمار نہیں ہوا
، آپ ﷺنے فرمایا ۔ہمارے پاس سے چلے جاؤ ، تم ہم میں سے نہیں ہو۔مشکوۃرقم 1571
دنیا سے بے رغبتی اختیار کرنا حکمت کا باعث
ابوزر
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔رسول اللہﷺ نے فرمایا ۔بندہ دنیا سے بے رغبتی اختیار کرتا
ہے تو اللہ اس کے دل میں حکمت پیدا فرما دیتا ہے ۔ اس (حکمت) کو اس کی زبان پر جاری
فرما دیتا ہے ، دنیا کا عیب اس کی بیماریاں
اور اس کے علاج پر اسے بصیرت عطا فرما دیتا ہے اور اسے اس سے صحیح سلامت دار السلام
(جنت) کی طرف نکال لے جاتا ہے ۔مشکوۃ رقم 5199
پانچ چیزوں میں مبتلا ہونے سے اللہ کی پناہ
حضرت
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا
اے جماعت مہاجرین پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہوجاؤ اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں
اس سے کہ تم ان چیزوں میں مبتلا ہو۔ اول یہ کہ جس قوم میں فحاشی اعلانیہ ہونے لگے تو
اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں۔
اور
جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط مصائب اور بادشاہوں (حکرانوں) کے ظلم وستم
میں مبتلا کردی جاتی ہے اور جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکوۃ نہیں دیتی تو بارش روک
دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ برسے اور جو قوم اللہ
اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے
جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں
اور
جب مسلمان حکمران کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ
نظام میں ( بعض احکام) اختیار کرلیتے ہیں (اور باقی چھوڑ دیتے ہیں)اللہ انہیںباہمی
اختلافات میں مبتلا فرما دیتا ہے۔ابن ماجہ4019
حجامہ کی فضیلت
حضرت
انس رضی اللہ عنہ مرفوع حدیث بیان کرتے ہیں کہ جس نے منگل کے دن سترہ تاریخ کو سینگی
لگوائی اللہ اس سے سال کی بیماریاں ختم کردیتاہے۔بیہقی
پیٹ بھر کر کھانا بیماریوں کا سبب
حضرت
عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا ۔پیٹ بھرکرکھانے پینے سے پرہیز کرنا ۔کیونکہ اس
سے جسم خراب ہوجاتا ہے۔ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ نماز میں سستی پیدا ہوتی ہے۔ ان دونوں
میں میانہ روی اختیار کرو ۔کیونکہ اس سے جسم درست رہتا فضول خرچی سے دور رکھتی ہے
۔اللہ تعالیٰ کو لحیم شحیم آدی سے نفرت ہے ۔آدمی اسی وقت ہلاکت میں پڑتا ہے جب اپنی
خواہش کو اپنے دین پر غالب کردیتا ہے۔کنز العمال
مدینے کی آب و ہوا میں شفا کی دعا
جب
رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تو ابوبکررضی اللہ عنہ اور بلالرضی اللہ عنہ بخار میں
مبتلا ہو گئے۔ ابوبکررضی اللہ عنہ جب بخار میں مبتلا ہوئے ۔تو یہ شعر پڑھتے۔ ہر آدمی
اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے حالانکہ اس کی موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ
قریب ہے۔ اور بلال رضی اللہ عنہ کا جب بخار اترتا ۔تو آپ بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے۔
کاش! میں ایک رات مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل ( گھاس )
ہوتیں۔ کاش! ایک دن میں مجنہ کے پانی پر پہنچتا اور کاش! میں شامہ اور طفیل ( پہاڑوں )
کو دیکھ سکتا۔ کہا کہ اے میرے اللہ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ
بن خلف مردودوں پر لعنت
کر۔
انہوں نے اپنے وطن سے اس وبا کی زمین میں نکالا ہے۔ رسول اللہﷺ نے یہ سن کر فرمایا
اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کر دے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ
اس سے بھی زیادہ! اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور مدینہ کی
آب و ہوا ہمارے لیے صحت خیز کر دے یہاں کے بخار کو جحیفہ میں بھیج دے۔ عائشہنے بیان
کیا کہ جب ہم مدینہ آئے تو یہ اللہ کی سب سے زیادہ وبا والی سر زمین تھی۔ انہوں نے
کہا مدینہ میں بطحان نامی ایک نالہ سے ذرا ذرا بدمزہ اور بدبودار پانی بہا کرتا تھا۔
بخاری رقم 1889
میت کی تعریف پر جنت واجب ہونے کی بشارت
میں(ابی
اسود رضی اللہ عنہ) مدینہ آیا تو یہاں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ بڑی تیزی سے مر رہے
تھے۔ میں عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ گزرا۔ لوگوں نے اس میت کی تعریف
کی تو عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ واجب ہو گئی۔ پھر دوسرا گزار لوگوں نے اس کی بھی تعریف
کی عمررضی اللہ عنہ نے کہا واجب ہو گئی۔ پھر تیسرا گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی،
عمررضی اللہ عنہ نے اس کے لیے یہی کہا کہ واجب ہو گئی۔ میں نے پوچھا امیرالمؤمنین!
کیا واجب ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسی طرح کہا ہے جس طرح نبی کریم ﷺنے فرمایا
تھا کہ جس مسلمان کے لیے چار آدمی اچھائی کی گواہی دے دیں اسے اللہ تعالیٰ جنت میں
داخل کرتا ہے۔ ہم نے آپﷺ سے پوچھا اور اگر تین دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تین پر بھی۔
ہم نے پوچھا اور اگر دو آدمی گواہی دیں؟ فرمایا دو پر بھی۔ پھر ہم نے ایک کے متعلق
آپ ﷺسے نہیں پوچھا۔ بخاری رقم 2643
سال میں ایک وبا نازل ہونے کی رات
حضرت
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ۔برتن ڈھانک دو ، مشکیزے کامنہ
باندھ دو ، کیونکہ سال میں ایک رات ایسی ہوتی ہے جس میں وبا نازل ہوتی ہے ۔ پھر جس
بھی ان ڈھکے برتن اور منہ کھلے مشکیزے کے پاس سے گزرتی ہے ۔ تو اس وبا میں سے ( کچھ
حصہ ) اس
میں اُتر جاتا ہے ۔ مسلم رقم 5255
بکھرے بالوں والی کالی عورت کا مدینے سے نکلنا
آپ ﷺنے فرمایا۔میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک کالی عورت
جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، مدینہ سے نکلی یہاں تک کہ مقام مہیعہ آ کر رکی، اور وہ
جحفہ ہے، پھر میں نے اس کی تعبیر مدینے کی وبا سے کی جسے جحفہ منتقل کر دیا گیا۔ابن
ماجہ رقم3924
اللہ کا بیماریوں کے علاج پر بصیرت عطا فرمانا
ابوذر
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔رسول اللہﷺ نے فرمایا ۔بندہ دنیا سے بے رغبتی اختیار کرتا
ہے تو اللہ اس کے دل میں حکمت پیدا فرما دیتا ہے ، اس (حکمت) کو اس کی زبان پر جاری
فرما دیتا ہے ، دنیا کا عیب ، اس کی بیماریاں اور اس کے علاج پر اسے بصیرت عطا فرما
دیتا ہے اور اسے اس سے صحیح سلامت دار السلام (جنت) کی طرف نکال لے جاتا ہے ۔ مشکوۃرقم
5199
شہداء کی قسمیں
ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کسی راستہ میں چلا
جارہا تھا کہ اس نے راستے میں کانٹوں کی ایک شاخ پڑی ہوئی دیکھی تو اس کو ہٹا دیا پس
اللہ تعالیٰ نے اس کا ثواب اسے یہ دیا کہ اس کو بخش دیا پھر آپ نے فرمایا کہ شہید
پانچ لوگ ہیں جو طاعون میں مرے جو پیٹ کے مرض میں مرے اور جو ڈوب کر مرے اور جو دب
کر مرے اور جو اللہ کی راہ میں شہید ہوا اور آپ نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے
کہ اذان دینے میں اور پہلی صف میں شامل ہونے میں کیا ثواب ہے اور پھر یہ نیک کام قرعہ
ڈالے بغیر نصیب نہ ہو تو یقینا وہ اس پر قرعہ ڈالیں اور معلوم ہوجائے کہ سویرے نماز
پڑھنے میں کیا فضیلت ہے تو بیشک اس کی طرف سبقت سے پڑھنے میں کس قدر ثواب ہے تو یقینا
ان میں آکر شریک ہوں اگرچہ گھنٹوں کے بل چلنا پڑے۔ بخاری رقم 653
طاعون سے مرنے والا شہید
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ۔کہ پیٹ کے مرض اور طاعون
سے مرنے والا (مسلمان) شہید ہے۔ بخاری رقم 5733
مدینے میں دجال اور طاعون داخل نہیں ہوسکتے
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ
مدینہ کے دروازوں پر فرشتے ہوں گے وہاں نہ تو طاعون اور نہ دجال داخل ہوگا۔ بخاری رقم
1880
طاعون ہر مسلمان کے لیے شہادت
حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ کہ طاعون ہر مسلمان
کے لئے شہادت ہے۔ بخاری رقم5732
طاعون والی جگہ جانے اورنکلنے کا حکم
عمر
بن عبیداللہ کے آزاد کردہ غلام عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے اور وہ اپنے
والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد کو حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ سے
یہ دریافت کرتے ہوئے سنا کیا تم نے رسول اللہﷺ سے طاعون کے بارے میں کچھ سنا ہے ؟ حضرت
اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے۔ طاعون ایک عذاب ہے۔ جو بنی اسرائیل
کی ایک جماعت پر آیا ۔آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے نازل کیا
گیا تھا جب تم سنو کہ کسی مقام پر طاعون ہے تو تم وہاں نہ جاؤ اور جب اس جگہ طاعون
پھیل جائے جہاں تم رہتے ہو تو تم وہاں نہ جاؤ اور جب اس جگہ طاعون پھیل جائے جہاں
تم رہتے ہو تو وہاں سے بھاگ کر دوسری جگہ نہ جاؤ ابوالنضر فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ
ہے کہ خاص بھاگنے کی نیت سے (دوسری جگہ) نہ جاؤ اگر کوئی دوسری ضرورت پیش آجائے تو
وہاں سے دوسری جگہ جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بخاری رقم3473
طاعون کی مصیبت پر شہادت کا ثواب
حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺسے بیان کرتی ہیں۔ کہ انہوں نے کہا میں نے ایک مرتبہ
رسول اللہ ﷺسے طاعون کی حقیقت دریافت کی۔ آپﷺ نے فرمایا۔ طاعون ایک عذاب ہے، جس کو
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو
مومنوں کے لیے رحمت قرار دیتا ہے اور جس جگہ طاعون ہو اور وہاں کوئی اللہ کا مومن بندہ
ٹھہرا رہے۔ اور صابر اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کا طالب رہے۔ اور یہ اعتقاد رکھتا ہو۔
کہ اس کو کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی مگر صرف وہی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کردی
ہے۔ تو اس کو شہید کا ثواب ملتا ہے۔بخاری رقم 3474
طاعون گزشتہ امتوں کے لیے عذاب یا مصیبت
عامر
بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت
کرتے ہیں انہوں نے اسامہ بن زید کو سعدرضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہوئے سنا۔ کہ رسول اللہﷺ نے طاعون
کا ذکر کیا۔ اور فرمایا وہ مصیبت یا عذاب ہے۔ جس میں بعض قومیں مبتلا کی گئی تھیں۔
پھر اس میں کچھ باقی رہ گیا جو کبھی چلا جاتا ہے۔ اور کبھی آجاتا ہے۔ پس جو شخص کسی
جگہ کے متعلق سنے کہ (وہاں وبا پھیلی ہوئی ہے) تو وہاں نہ جائے اور جو شخص کسی جگہ
ہو اور وہاں وبا پھیل جائے تو وہاں سے بھاگ کر نہ جائے۔بخاری رقم 6974
قیامت کی چھ نشانیاں
میں
غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اس وقت چمڑے کے ایک خیمے
میں تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا، کہ قیامت کی چھ نشانیاں شمار کر لو۔ میری موت،
پھر بیت المقدس کی فتح، پھر ایک وبا جو تم میں شدت سے پھیلے گی جیسے بکریوں میں طاعون
پھیل جاتا ہے۔ پھر مال کی کثرت اس درجہ میں ہو گی کہ ایک شخص سو دینار بھی اگر کسی
کو دے گا تو اس پر بھی وہ ناراض ہو گا۔ پھر فتنہ اتنا تباہ کن عام ہو گا کہ عرب کا
کوئی گھر باقی نہ رہے گا جو اس کی لپیٹ میں نہ آ گیا ہو گا۔ پھر صلح جو تمہارے اور
بنی الاصفر ( نصارائے روم ) کے درمیان ہو گی، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم
لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اس میں اسی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت
بارہ ہزار فوج ہو گی ۔3176
شام میں طاعون کی وبا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے
عمر
بن خطاب رضی اللہ عنہ شام تشریف لے جا رہے تھے ۔جب آپ مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کی
ملاقات فوجوں کے امراء ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں سے ہوئی۔
ان لوگوں نے امیرالمؤمنین کو بتایا کہ طاعون کی وبا شام میں پھوٹ پڑی ہے۔ ابن عباس
رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ کہ اس پر عمررضی
اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرین اولین
کو بلا لاؤ۔ آپ انہیں بلا لائے تو عمررضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ کیا۔ اور انہیں بتایا کہ شام میں
طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے، مہاجرین اولین کی رائیں مختلف ہو گئیں۔ بعض لوگوں نے کہا
کہ صحابہ رسول اللہ ﷺکے ساتھیوں کی باقی ماندہ جماعت آپ کے ساتھ ہے اور یہ مناسب نہیں
ہے کہ آپ انہیں اس وبا میں ڈال دیں۔ عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا اب آپ لوگ تشریف
لے جائیں پھر فرمایا کہ انصار کو بلاؤ۔ میں انصار کو بلا کر لایا آپ نے ان سے بھی
مشورہ کیا اور انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا کوئی کہنے لگا چلو، کوئی کہنے
لگا لوٹ جاؤ۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں پھر فرمایا
کہ یہاں پر جو قریش کے بڑے بوڑھے ہیں جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے
تھے انہیں بلا لاؤ، میں انہیں بلا کر لایا۔ ان لوگوں میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں
ہوا سب نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اور وبائی
ملک میں لوگوں کو نہ لے کر جائیں۔ یہ سنتے ہی عمررضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کرا
دیا کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہو کر واپس مدینہ منورہ لوٹ جاؤں گا تم لوگ بھی واپس
چلو۔ صبح کو ایسا ہی ہوا ابوعبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ نے کہا کیا اللہ کی تقدیر
سے فرار اختیار کیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ کاش! یہ بات کسی اور نے کہی
ہوتی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں۔ لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف۔
کیا تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم انہیں لے کر کسی ایسی وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے
ہوں ایک سرسبز شاداب اور دوسرا خشک۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اگر تم سرسبز کنارے پر چراؤ
گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہو گا۔ اور خشک کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی
تقدیر سے ہی ہو گا۔ بیان کیا کہ پھر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہآ گئے۔ وہ اپنی
کسی ضرورت کی وجہ سے اس وقت موجود نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے پاس مسئلہ سے متعلق
ایک علم ہے۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا۔ کہ جب تم کسی سر زمین میں ( وبا کے متعلق ) سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آ جائے
جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر عمررضی اللہ
عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر واپس
ہو گئے۔بخاری رقم 5729
شہداء کی سات قسمیں
رسول
اللہﷺ عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بیمار پرسی کے لیے آئے تو ان کو بیہوش
پایا، آپ ﷺ
نے
انہیں پکارا تو انہوں نے آپ کو جواب نہیں دیا، تو آپ ﷺ نے «إنا
لله وإنا إليہ راجعون پڑھا، اور فرمایا۔اے ابوربیع! تمہارے معاملے میں قضاء ہمیں مغلوب
کر گئی ، یہ سن کر عورتیں چیخ پڑیں، اور رونے لگیں تو ابن عتیک رضی اللہ عنہ انہیں
خاموش کرانے لگے تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔چھوڑ دو ۔ جب واجب ہو جائے تو کوئی رونے والی
نہ روئے ، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! واجب ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا
موت ۔ عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی بیٹی کہنے لگیں۔ میں پوری امید رکھتی تھی کہ
آپ شہید ہوں گے کیونکہ آپ نے جہاد میں حصہ لینے کی پوری تیاری کر لی تھی۔ رسول اللہ
ﷺنے فرمایا۔اللہ تعالیٰ انہیں ان کی نیت کے موافق اجر و ثواب دے چکا، تم لوگ شہادت
کسے سمجھتے ہو؟ لوگوں نے کہا۔اللہ کی راہ میں
قتل ہو جانا شہادت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ قتل فی سبیل اللہ کے علاوہ بھی سات شہادتیں
ہیں۔ طاعون میں مر جانے والا شہید ہے، ڈوب کر مر جانے والا شہید ہے، ذات الجنب سے مر جانے والا شہید ہے۔ پیٹ کی بیماری
سے مر جانے والا شہید ہے۔جل کر مر جانے والا شہید ہے۔ جو دیوار گرنے سے مر جائے شہید
ہے۔ اور عورت جو حالت حمل میں ہو اور مر جائے تو وہ بھی شہید ہے ۔ ابوداود رقم 3111
شہدا ء کا طاعون سے وفات پانے والوں کے لیے جھگڑا
حضرت
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔شہداء اور بستروں
پر فوت ہونے والےطاعون سے فوت ہونے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جھگڑا کریں
گے۔ شہداء کہیں گے۔ یہ ہمارے بھائی ہیں ۔کیونکہ یہ بھی ہماری طرح قتل ہی ہوئے ہیں۔
اور بستروں پر فوت ہونے والے کہیں گے۔یہ ہمارے بھائی ہیں کیونکہ یہ ہماری طرح بستروں
پر فوت ہوئے ہیں۔ رب تبارک وتعالیٰ فرمائے گا۔ان کے زخم دیکھو۔ اگر ان کے زخم مقتولین
کے زخموں کی طرح ہیں تو یہ ان میں شمار ہوں گے اور ان کے ساتھ رہیں گے۔ جب دیکھا جائے
گا تو ان کے زخم شہداء کے زخموں جیسے ہوں گے۔نسائی 3166
مومن کا جل کر مرنا یا ڈوب کر مرنا بھی شہادت
وہ
بیمار ہوئے تو نبی اکرمﷺ بیمار پرسی ( عیادت
) کے لیے تشریف لائے، ان کے اہل خانہ میں سے
کسی نے کہا۔ ہمیں تو یہ امید تھی کہ وہ اللہ کے راستے میں شہادت کی موت مریں گے، اس
پر نبی اکرمﷺ نے فرمایا۔تب تو میری امت کے شہداء کی تعداد بہت کم ہے! ( نہیں ایسی بات نہیں بلکہ ) اللہ کے راستے میں قتل ہونا شہادت ہے، مرض طاعون
میں مر جانا شہادت ہے، عورت کا زچگی ( جننے
کی حالت ) میں مر جانا شہادت ہے، ڈوب کر یا
جل کر مر جانا شہادت ہے، نیز پسلی کے ورم میں مر جانا شہادت ہے ۔ابن ماجہ رقم 2803کرتے،
اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور
اختلاف ڈال دیتا ہےابن ماجہ 4019
طاعون امت کے لیے شہادت رحمت دعا
ایوب
ابو قلابہ سے بیان کرتے ہیں کہ شام کے علاقہ میں طاعون پڑ گیا، سیدنا عمرو بن عاص رضی
اللہ عنہ نے کہا۔ یہ عذاب ہے جو بپا ہوا ہے،
اس سے بھاگ جاؤ، گھاٹیوں اور وادیوں میں چلے جاؤ، لیکن جب یہ بات سیدنا معاذرضی
اللہ عنہ تک پہنچی تو انہوں نے اس کی تصدیق
نہ کی، انہوں نے کہا۔یہ عذاب نہیں ہے۔بلکہ یہ تو شہادت اور رحمت ہے اور تمہارے نبی
ﷺکی دعا ہے۔اے اللہ! معاذ اس کے گھر والوں کو اپنی رحمت کا حصہ عطا کر۔ابوقلابہ کہتے
ہیں۔میں نے شہادت اور رحمت کو تو سمجھ لیا تھا۔ لیکن سیدنا معاذرضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ یہ تمہارے نبی کی دعا ہے، مجھے اس
کا پتہ نہ چل سکا، بعد میں مجھے بتایا گیا کہ ایک رات نبی کریم ﷺنماز پڑھ رہے تھے، آپﷺ نے اپنی دعا میں یہ الفاظ
دوہرائے۔تب بخار یا طاعون، تو پھر بخار یا طاعون۔ تین بار یہ الفاظ دوہرائے۔
جب
صبح ہوئی تو آپ ﷺکے گھر والوں میں سے ایک نے پوچھا۔ اے اللہ کے رسول ! میں نے رات
آپ سے ایک دعا سنی ہے، جو آپ کررہے تھے، آپ ﷺنےفرمایا۔ تم نے وہ سن لی ہے؟ انہوں
نے کہا۔جی ہاں،آپ ﷺنے فرمایا۔میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو قحط سالی
سے ہلاک نہ کرنا، اس نے یہ مطالبہ قبول فرمالیا، میں نے دوسرا مطالبہ کیا تھا کہ ان
پر ان کے غیر سے دشمن مسلط نہ کرنا، جو ان کو جڑ سے مار ڈالے، اس نے یہ مطالبہ بھی
قبول کر لیااور میں نے ایک یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ میری امت کو فرقوں میں تقسیم نہ
کرنا کہ یہ ایک دوسرے کو عذاب چکھانا شروع کر دیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول
نہ کی،پھر میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر (یہ دعا قبول نہیں کرنی) تو بخار یا طاعون
میں انہیں مبتلا کردینا، بخار یا طاعون، بخار یا طاعون۔ تین بار فرمایا۔مسند 7789
طاعون ایمانداروں کے لیے رحمت کافروں کے لیے عذاب
سیدنا
ابو عسیب رضی اللہ عنہ جو کہ نبی کریم ﷺکے آزاد کردہ غلام تھے۔ان سے مروی ہے کہ نبی
کریمﷺ نے فرمایا۔جبریل علیہ السلام میرے پاس بخار اور طاعون لے کر آئے، میں نے بخار
کو مدینہ میں روک لیا ۔اور طاعون کو شام کے علاقہ میں بھیج دیا۔ یہ طاعون میری امت
کے ایمانداروں کے لئے رحمت ہے اور کافروں کے لئے عذاب ہے۔ مسند 7792
امت کی فنا نیزہ زنی اور طاعون
سیدنا
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔میری امت کی فنا
طعنہ(نیزہ) زنی اور طاعون میں ہے۔ کسی نے کہا۔ اے اللہ کے رسول! طعنہ(نیزہ) زنی کو
تو ہم جانتے ہیں، طاعون کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ یہ تمہارے دشمن جنوں کا طعنہ(نیزہ)
ہے۔ اور (طاعون ہو یا طعنہ زنی) ہر ایک میں شہداء ہیں۔ مسند 7793
طاعون اور نبی ﷺکی دعا
اسامہ
بن شریک کہتے ہیں۔ہم بنو ثعلبہ میں سے چودہ پندرہ آدمی نکلے اور اچانک ہم سیدنا ابو
موسیٰ اشعری کو جا ملے، انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا: اے اللہ! میری قوم کی فنا طاعون کے ذریعہ کر۔ ۔مسند احمد 7795
سیدنا
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ اے اللہ! میری
امت کو اپنے راستے میں طعنہ زنی اور طاعون کے ذریعے فنا کرنا۔ مسند 7796
طاعون آگ اور سیلاب کی مانند
سیدنا
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے طاعون کے بارے
میں خطبہ کے آخر میں کچھ بیان کیا اور کہا۔یہ سیلاب کی مانند ایک عذاب ہے، جو اس کی
زد میں بچ جائے گا۔ یہ اس سے درگزر کرے گا اور یہ آگ کی مانند ہے۔ جو اس سے دور رہے
گا۔ یہ اس سے تجاوز کرجائے گا ۔اور جو اس میں ٹھہرا رہے گا۔یہ اسے خاکستر بنادے گا۔
اذیت میں مبتلا کردے گا۔ سیدنا شرجیل بن حسنہ
رضی اللہ عنہ نے کہا۔ یہ تمہارے نبی کی دعا اور رحمت ہے۔ اور اس کے ذریعہ نیکوکار
لوگ فوت ہوتے رہے ہیں۔ مسند 7799
طاعون سے فرار ہونے والا
جابررضی
اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔طاعون سے فرار ہونے والا میدان جہاد
سے فرار ہونے والے کی طرح ہے ، اور وہاں صبر کرنے (رک جانے) والے کے لیے شہید کا ثواب
ہے ۔مشکوۃ1597
شام میں طاعون کی وبا میں کثرت اموات
قبیصہ
بن ذؤیب کہتے ہیں کہ شام میں طاعون واقع ہوگیا چنانچہ ایک ایک گھر والے سب کے سب مر
جایا کرتے تھے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے یہ لکھا کہ اوپر والے کو نیچے والے کا وارث
بنایا جائے۔ اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو وہ ایک دوسرے کے وارث بنا دیئے جائیں، سعید
فرماتے ہیں کہ اوپر والے کو نیچے والے کا وارث بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے مرنے
والا اس طرح مرتا تھا کہ وہ اپنا ہاتھ دوسرے کے پہلو پر رکھے ہوتا۔ابن بی شیبہ
طاعون کی تمنا کرنا
زاذان
علیم سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ چھت پر تھے اور ان کے ساتھ ایک صحابی بھی
تھے۔ طاعون کے دنوں میں پس ہمارے پاس سے جنازے گزرنے شروع ہوئے تو اس نے کہا اے طاعون
مجھے پکڑ لے۔علیم نے کہا کیا کیا رسول اللہ ﷺنے یہ نہیں فرمایا کہ تم میں سے کوئی موت
کی تمنا نہ کرے کیونکہ موت اعمال کے منقطع ہونے کا باعث ہے اور انسان کو لوٹایا نہیں
جاتا ۔کہ وہ اللہ کو راضی کرے۔ پس انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے
ہوئے سنا کہ تم چھ چیزوں کی وجہ سے موت کو جلدی طلب کرو، بیوقوفوں کی امارت کی وجہ
سے، بادشاہوں کے خاص سپاہیوں کے زیادہ ہوجانے کی وجہ سے، فیصلوں کے بکنے کی وجہ سے
اور خون ارزاں ہونے کی وجہ سے اور قرآن کو بانسریاں بنانے والے نو عمر لڑکوں کی وجہ
سے جنھیں لوگ نماز میں اس لیے آگے کریں گے تاکہ وہ انہیں قرآن کو گانے کے انداز میں
سنائیں۔ حالانکہ وہ اپنی فہم میں سب سے کم تر ہوگا۔ ابن ابی شیبہ
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی طاعون
میں شہادت
ابن
شہاب نے ابو موسیٰ اشعری کی طرف نسبت کر کے بیان کیا ہمیں ایک دن فرمانے لگے تم پر
کوئی حرج نہیں کہ تم مجھ سے چھپے رہو یہ طاعون میرے گھر میں داخل ہوگئی ہے پس جو چاہے
تم میں سے بچے وہ علیحدگی اختیار کرے اور دو چیزوں سے خاص طور پر احتیاط کرو کہ کہنے
والا یہ کہے کہ نکلنے والا نکل گیا وہ بچ گیا اور بیٹھنے والا بیٹھا رہا پس اس کو طاعون
پہنچ گئی اگر میں بھی نکل جاتا تو میں بھی اسی طرح بچ جاتا جس طرح فلاں گھر والے بچ
گئے۔ کوئی کہنے والا یوں کہنے لگے اگر میں بھی بیٹھا رہتا تو مجھے بھی طاعون آ لیتی
جیسے فلاں کو آئی میں تمہیں عنقریب بتاتا ہوں کہ طاعون میں لوگوں کو کیا مناسب ہے
میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شام
میں تھا اور شام میں طاعون بڑھ گئی ۔
حضرت
عمررضی اللہ عنہ نے ان کی طرف خط لکھا۔ کہ
جب تمہیں میرا یہ خط پہنچے تو میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اگر یہ صبح سویرے خط آئے
تو شام ہونے سے پہلے تم سوار ہوجاؤ اور اگر شام کے وقت آئے تو صبح ہونے سے پہلے تم
میری طرف سوار ہو کر آ جاؤ مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے جس میں تمہارے بغیر مجھے
چارہ کار نہیں جب حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ
نے یہ خط پڑھا تو کہنے لگے امیرالمومنین اس کو باقی رکھنا چاہتے ہیں جو باقی
رہنے والا نہیں۔
چنانچہ
ان کی طرف حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے
لکھا میں مسلمانوں کے لشکر میں ہوں ۔مجھے آرزو اور رازداری سے نفرت ہے میں اپنے نفس
کے بارے میں رغبت رکھتے ہوئے ان سے ہرگز دوری اختیار نہیں کرسکتا ہمیں امیرالمومنین
کی ضرورت معلوم ہوگئی پس اپنی قسم کو میرے بارے میں توڑ دیجئے جب حضرت عمررضی اللہ
عنہ کے پاس خط پہنچا تو وہ رو پڑے ان سے پوچھا
گیا کیا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی انہوں نے کہا نہیں حضرت عمررضی اللہ
عنہ نے ان کی طرف لکھا تھا کہ اردن گہری سرزمین
ہے اور جابیہ صحت مند سرزمین ہے پس تم مسلمانوں کو لے کر جابیہ میں آ جاؤ مجھے ابو
عبیدہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ جاؤ اور مسلمانوں
کے لیے ان کے ٹھکانے مقرر کر دو میں نے کہا میں اس کی طاقت نہیں رکھتا راوی کہتے ہیں
کہ وہ سوار ہونے کے لیے چلے گئے تو مجھے ایک آدمی نے کہا کہ ان کو طاعون نے پکڑ لیا
ہے چنانچہ وہ طاعون میں مبتلا ہوئے اور وفات پائی اور طاعون پھیل پڑا۔ یہ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے لوگوں کو طاعون سے نکلنے کا حکم دیا اور اصحاب رسول اللہﷺ
نے اس سلسلے میں ان کی موافقت کی اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے ایک ارشاد نقل کیا تو اس رائے
کے موافق تھا اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے علاوہ بھی دیگر صحابہ نے اسی طرح کی روایت
بیان کی ہے۔ طحاوی شریف
طاعون میں زردیاقوت کی انگوٹھی پہننا
جو
زرد یاقوت کی انگوٹھی پہن لے وہ طاعون سے محفوظ ہوجائے گا۔(اس کی سند ضعیف ہے)کنزالعمال
Belkul sahi farmaya
ReplyDelete