فضیلت حسنین کریمین رضی اللہ عنہما (سید ظہیر حسین شاہ رفاعی) Fazilat E Husnain Karimain R.A
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہم صلی علی محمد و علی آلہ وصحبہ وسلم
حسنین
کریمین رضی اللہ عنہما کی فضیلت کے حوالے سے قرآن و احادیث کی روشنی میں یہ کتاب عارضی طورپرنشر کی
جار ہی ہے۔اگر آپ اس کتاب میں کسی مقام پر کسی بھی قسم کی غلطی دیکھیں مہربانی
فرماکر 03044653433 نمبر پر وٹس ایپ فرمائیں۔تاکہ ہارڈ کاپی میں وہ غلطی شامل نہ
ہو۔پروف ریڈنگ کے فرائض سر انجام دے کر آپ بھی اپنے لیے صدقہ جاریہ کا دروازہ
کھولیں۔اس کتاب کو خو د بھی پڑھیں ۔اپنے عزیزواقارب دوست احباب و دیگر گروپس میں
صدقہ جاریہ کے طور پر اس کتاب کو شئیر فرمائیں
سید ظہیر حسین شاہ رفاعی
رفاعی اسلامک ریسرچ سینٹر
کتاب اللہ اور اہل بیت
حَدَّثَنَا
عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ:
حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،وَالْأَعْمَشُ،
عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،
قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ
بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ،
كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي
أَهْلُ بَيْتِي، وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ،
فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا . قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.ترمذی
3788
رسول
اللہﷺنے فرمایا: میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے
والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ان میں سے ایک دوسرے سے
بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی
ہے، اور دوسری میری «عترت»
یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر
پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی
کر رہے ہو ۔ترمذی
اہل بیت اور محمد ﷺ
حَدَّثَنِي
يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، وَصَدَقَةُ، قَالَا: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ
جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ،
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ أَبُو
بَكْرٍ: ارْقُبُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ.بخاری
3751
ابن
عمر رضی اللہ عنہنے بیان کیا کہ ابوبکررضی اللہ عنہنے فرمایا کہ نبی کریمﷺ (کی خوشنودی)
کو آپ کے اہل بیت کے ساتھ (محبت و خدمت کے
ذریعہ) تلاش کرو۔بخاری
حسنین کریمین ؆کے نام سے متعلق
احادیث
عن
علی رضی الله عنه قال : لما ولد حسن سماه حمزة، فلما ولد حسين سماه بإسم عمه جعفر.
قال : فدعاني رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و قال : إني اُمرت أن أغير إسم هٰذين.
فقلت : أﷲ و رسوله أعلم، فسماهما حسنا و حسيناً. احمد بن حنبل
حضرت
علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوے۔ تو اس کا نام حمزہ
رکھا اور جب حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوے تو اس کا نام اس کے چچا کے نام پر جعفر رکھا.
(حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) مجھے نبی اکرمﷺ نے بلا کر فرمایا : مجھے ان کے
یہ نام تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) میں نے عرض
کیا : اﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ پس آپ ﷺ نے ان کے نام حسن رضی اللہ عنہ و
حسین رضی اللہ عنہ رکھے۔احمد بن حنبل
عن
سلمان رضي الله عنه قال : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : سميتهما يعني الحسن
والحسين باسم ابني هارون شبرا و شبيرا. طبراني، المعجم الکبير
حضرت
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں نے
ان دونوں یعنی حسن رضی اللہ عنہاور حسین رضی اللہ عنہ کے نام ہارون (علیہ السلام) کے
بیٹوں شبر اور شبیر کے نام پر رکھے ہیں۔طبرانی
عن
عکرمة قال : لما ولدت فاطمة الحسن بن علی جاء ت به الی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله
وسلم فسماه حسنا، فلما ولدت حسينا جاء ت به الي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقالت
: يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! هذا أحسن من هذا تعني حسينا فشق له من اسمه فسماه
حسينا.عبدالرزاق، المصنف
حضرت
عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکے ہاں حسن بن علی رضی
اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو وہ انہیں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں لائیں، لہٰذا آپﷺنے ان
کا نام حسن رضی اللہ عنہ رکھا اور جب حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو انہیں حضور
نبی اکرم ﷺکی بارگاہ میں لا کر عرض کیا! یا رسول ﷺ یہ (حسین) اس (حسن) سے زیادہ خوبصورت
ہے لہٰذا آپﷺنے اس کے نام سے اخذ کرکے اُس کا نام حسین رضی اللہ عنہ رکھا.مصنف عبد
الرزاق
عن
علی بن ابی طالب رضی الله عنه قال : لما ولدت فاطمة الحسن جاء النبی صلی الله عليه
وآله وسلم فقال : أروني ابني ما سميتموه؟ قال : قلت : سميته حربا فقال : بل هو حسن
فلما ولدت الحسين جاء رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقال : أروني ابني ما سميتموه؟
قال : قلت : سميته حربا قال : بل هو حسين ثم لما ولدت الثالث جاء رسول اﷲ صلي الله
عليه وآله وسلم قال : أروني ابني ما سميتموه؟ قلت : سميته حربا. قال : بل هو محسن.
ثم قال : إنما سميتهم بإسم ولد هارون شبر و شبير و مشبر. حاکم، المستدرک،
حضرت
علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب فاطمہ کے ہاں حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی
تو حضور نبی اکرم ﷺتشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، اس کا نام کیا رکھا
ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہیں
بلکہ وہ حسن رضی اللہ عنہ ہے پھر جب حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم
ﷺ تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں
نے عرض کیا : میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ حسین رضی
اللہ عنہ ہے۔ پھر جب تیسرا بیٹا پیدا ہوا تو حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا
: مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس
کا نام حرب رکھا ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ اس کا نام محسن ہے۔ پھر ارشاد
فرمایا : میں نے ان کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے نام
پر رکھے ہیں۔مستدرک حاکم
حضور ﷺکے چودہ نجیب و نقیب
عن
المسيب بن نجبة قال : قال علیّ بن أبي طالب : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم
: إن کل نبي اعطي سبعة نجباء أو نقباء، و أعطيت أنا أربعة عشر. قلنا : من هم؟ قال
: أنا و أبناي و جعفر و حمزة و أبوبکر و عمر و مصعب بن عمير و بلال و سلمان والمقداد
و حذيفة و عمار و عبد اﷲ بن مسعود.. ترمذي
مسیب
بن نجبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ہر
نبی کو سات نجیب یا نقیب عطا کئے گئے جبکہ مجھے چودہ عطا کئے گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ
ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ وہ کون ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بتایا
: میں، میرے دونوں بیٹے، جعفررضی اللہ عنہ، حمزہ رضی اللہ عنہ، ابوبکررضی اللہ عنہ،
عمررضی اللہ عنہ، مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ، بلالرضی اللہ عنہ، سلمان رضی اللہ عنہ،
مقدادرضی اللہ عنہ، حذیفہ رضی اللہ عنہ، عماررضی اللہ عنہ اور عبداﷲ بن مسعود رضی
اللہ عنہ۔ترمذی
آیت مباہلہ کے مصداق
عن
سعد بن ابي وقاص رضی اﷲ عنه قال : لما نزلت هذه الاية (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ
نَا وَ أَبْنَاءَ کُمْ) دعا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : عليا و فاطمة و حسنا
و حسينا فقال : اللهم هؤلاء اهلي. مسلم، الصحيح
۔حضرت
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ ’’آپ فرما دیں آؤ
ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرمﷺنے
علی رضی اللہ عنہ، فاطمہ رضی اللہ عنہا، حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کو
بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔صحیح مسلم
آیت انما یرید اللہ لیذھب کے مصداق
عن
ابي سعيد الخدري رضی اﷲ عنه في قوله (اِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ
أَهْلَ الْبَيْتِ) قال : نزلت في خمسة في رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و علي
و فاطمة والحسن والحسين۔طبراني، المعجم الاوسط
حضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اس فرمان ’’اے نبی ﷺکے گھر والو! اﷲ چاہتا ہے کہ تم سے
(ہر طرح کی) آلودگی دور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے‘‘ کے بارے میں فرماتے
ہیں : یہ آیت مبارکہ ان پانچ ہستیوں کے بارے میں نازل ہوئی : حضور نبی اکرمﷺ، علی
رضی اللہ عنہ، فاطمہ رضی اللہ عنہا، حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ۔طبرانی
حضور ﷺکا نسب اور یوم قیامت
عن
عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنه قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : کل سبب
و نسب منقطع يوم القيامة ما خلا سببي و نسبي کل ولد أب فان عصبتهم لأبيهم ما خلا
ولد فاطمه فإني أنا ابوهم و عصبتهم. احمد بن حنبل
حضرت
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم ﷺکو فرماتے ہوئے سنا
: قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سواء ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا. ہر بیٹے کی باپ
کی طرف نسبت ہوتی ہے ماسوائے اولادِ فاطمہ رضی اللہ عنہاد کے۔ کہ ان کا باپ بھی میں
ہی ہوں اور ان کا نسب بھی میں ہی ہوں۔احمد بن حنبل۔
لوگوں میں سب سے بہترکون!!
عن
ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أيها الناس!
ألا أخبرکم بخير الناس جدا و جدة؟ ألا أخبرکم بخير الناس عما و عمة؟ ألا أخبرکم
بخير الناس خالا و خالة؟ ألا أخبرکم بخير الناس أباً و أماً؟ هما الحسن و الحسين،
جدهما رسول اﷲ، و جدتهما خديجة بنت خويلد، و أمهما فاطمة بنت رسول اﷲ، و أبوهما علي
بن أبي طالب، و عمهما جعفر بن أبي طالب، و عمتهما أم هاني بنت أبي طالب، و خالهما
القاسم بن رسول اﷲ، و خالاتهما زينب و رقية و أم کلثوم بنات رسول اﷲ، جدهما في الجنة
و أبوهما في الجنة و أمهما في الجنة، و عمهما في الجنة و عمتهما في الجنة، و خالاتهما
في الجنة، و هما في الجنة. طبراني، المعجم الکبير
حضرت
عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : اے لوگو!
کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو (اپنے) نانا نانی کے اعتبار سے سب لوگوں
سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے نہ بتاؤں جو (اپنے) چچا اور پھوپھی کے لحاظ
سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو (اپنے) ماموں
اور خالہ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ
دوں جو (اپنے) ماں باپ کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ وہ حسن رضی اللہ عنہ اور حسین
رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے نانا اﷲ کے رسول، ان کی نانی خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ
عنہا ، ان کی والدہ فاطمہ بنت رسول اﷲ رضی
اللہ عنہا ، ان کے والد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ان کے چچا جعفر بن ابی طالبرضی
اللہ عنہ، ان کی پھوپھی ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہاد ، ان کے ماموں قاسم بن
رسول اﷲ اور ان کی خالہ رسول اﷲ کی بیٹیاں زینب رضی اللہ عنہا ، رقیہ رضی اللہ
عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا ہیں۔ ان کے نانا، والد، والدہ، چچا،
پھوپھی، ماموں اور خالہ (سب) جنت میں ہوں گے اور وہ دونوں (حسنین کریمین) بھی جنت میں
ہوں گے۔طبرانی
حسنین کریمین ؆رسول اللہ ﷺکے دنیا میں پھول
عن
ابن ابي نعم : سمعت عبداﷲ ابن عمر رضي اﷲ عنهما و سأله عن المحرم، قال شعبة : أحسبه
بقتل الذباب، فقال : أهل العراق يسألون عن الذباب و قد قتلوا ابن ابنة رسول اﷲ صلي
الله عليه وآله وسلم، و قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : هما ريحا نتاي من الدنيا.بخاري،
الصحيح
کسی
نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے حالت احرام کے متعلق دریافت کیا۔ شعبہ فرماتے
ہیں کہ میرے خیال میں (محرم کے) مکھی مارنے کے بارے میں پوچھا تھا۔ حضرت ابن عمررضی
اللہ عنہ نے فرمایا : اہل عراق مکھی مارنے کا حکم پوچھتے ہیں حالانکہ انہوں نے حضور
نبی اکرمﷺکے نواسے (حسین رضی اللہ عنہ) کو شہید کر دیا تھا اور نبی اکرم ﷺنے فرمایا
ہے : وہ دونوں (حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ) ہی تو میرے دُنیا کے دو پھول
ہیں۔صحیح بخاری
اہل بیت میں حسنین کریمین؆ کا مقام
حَدَّثَنَا
أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي يُوسُفُ
بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ
سَمِعَ
أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: أَيُّ أَهْلِ بَيْتِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ: الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ، وَكَانَ يَقُولُ
لِفَاطِمَةَ: ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ ،
فَيَشُمُّهُمَا وَيَضُمُّهُمَا إِلَيْهِ. قَالَ: هَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ
مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ.ترمذی 3772
رسول
اللہﷺسے پوچھا گیا کہ آپ کے اہل بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ تو آپ
ﷺنے فرمایا: حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی
اللہ عنہ آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے:
میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ، پھر آپﷺ انہیں سونگھتے اور انہیں اپنے سینہ سے
لگاتے ۔
امام حسن رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان
دینا
عن
ابي رافع رضي الله عنه قال : رايت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اذن في اذن الحسن
بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة۔ترمذی۔1514
حضرت
ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حسن
رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو حضور نبی اکرم ﷺ
نے خود ان کے کانوں میں اذان دی۔ترمذی
حسنین رضی اللہ عنہما کی طرف
سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلما کا عقیقہ فرمانا
عن
ابن عباس رضي اﷲ عنهما : أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عق عن الحسن و الحسين
کبشاً کبشاً.
حضرت
عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
حضور نبی اکرم ﷺ نے حسنین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا۔‘‘. ابوداؤد،
السنن
؆
عن
ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : عق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن الحسن و الحسين
بکبشين کبشين.
حضرت
عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ﷺنے حسنین کریمین کی طرف
سے عقیقے میں دو دو دنبے ذبح کئے۔نسائی
حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے اور میں
حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں
حَدَّثَنَا
الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ
بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ،
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ، أَحَبَّ
اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ . قَالَ
أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ
اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ
اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ.ترمذی 3775
رسول
اللہﷺنے فرمایا۔حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہیں اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں ۔ اللہ
اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے، حسین رضی اللہ عنہ قبائل
میں سے ایک قبیلہ ہیں۔
حسنین کریمین ؆ رضی اللہ عنہما
کی حضورﷺ سے مشابہت
حَدَّثَنَا
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى،
عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ،
قَالَ: الْحَسَنُ أَشْبَهُ بِرَسُولِ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ الصَّدْرِ إِلَى الرَّأْسِ،
وَالْحُسَيْنُ أَشْبَهُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ
أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ . هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.ترمذی 3779
حسن
رضی اللہ عنہ سینہ سے سر تک کے حصہ میں رسول اللہﷺسے سب سے زیادہ مشابہ تھے، اور حسین
رضی اللہ عنہ اس حصہ میں جو اس سے نیچے کا ہے سب سے زیادہ نبی اکرم ﷺسے مشابہ تھے۔
جو حضورﷺ کو دیکھنا چاہے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما؆
کو دیکھ لے
عن
علي رضی الله عنه، قال : من سره أن ينظر الي أشبه الناس برسول اﷲ صلي الله عليه وآله
وسلم ما بين عنقه الي وجهه فلينظر إلي الحسن بن علي، و من سره أن ينظر إلي أشبه الناس
برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما بين عنقه الي کعبه خلقا و لونا فلينظر إلي الحسين
بن علي.
حضرت
علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ وہ لوگوں میں ایسی ہستی
کو دیکھے جو گردن سے چہرے تک حضور نبی اکرمﷺکی سب سے کامل شبیہ ہو تو وہ حسن بن علی
رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے اور جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ وہ لوگوں میں ایسی ہستی کو دیکھے
جو گردن سے ٹخنے تک رنگت اور صورت دونوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کی سب سے کامل شبیہ ہو
تو وہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے۔‘‘طبرانی، المعجم الکبیر
حسنین کریمین؆ کے لیے سرداری و
ثابت قدمی طاقت و سخاوت
عن
أبي رافع رضي الله عنه قال : جاء ت فاطمة بنت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بحسن
و حسين إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في مرضه الذي قبض فيه، فقالت : هذان ابناک
فورثهما شيئا. فقال لها : أما حسن فان له ثباتي و سؤددي، و أما حسين فان له حزامتي
و جودي.
حضرت
ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدہ فاطمہ؆ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم ﷺکے
مرض الوصال میں اپنے دونوں بیٹوں کو آپﷺ کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض پرداز ہوئیں
: یہ آپ کے بیٹے ہیں انہیں کچھ وراثت میں عطا فرمائیں۔ آپﷺ نے فرمایا : حسن رضی
اللہ عنہ کے لئے میری ثابت قدمی اور سرداری کی وراثت ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے لئے
میری طاقت و سخاوت کی وراثت۔‘طبرانی المعجم اوسط
حسنین کریمین؆ رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار
عن
أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : الحسن
و الحسين سيدا شباب أهل الجنة.
حضرت
ابوسعیدخدری رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرﷺ نے ارشاد فرمایا : حسن رضی اللہ عنہ اور حسین
رضی اللہ عنہ جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ ترمذی
فرشتے کا سلام اور بشارتیں دینے
کے لیے اللہ سے اجازت طلب کرنا
حَدَّثَنَا
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ،
عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ:
سَأَلَتْنِي أُمِّي مَتَى عَهْدُكَ ؟ تَعْنِي بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا، فَنَالَتْ
مِنِّي، فَقُلْتُ لَهَا: دَعِينِي آتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فَأُصَلِّيَ مَعَهُ الْمَغْرِبَ وَأَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي
وَلَكِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّيْتُ
مَعَهُ الْمَغْرِبَ فَصَلَّى حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ انْفَتَلَ فَتَبِعْتُهُ،
فَسَمِعَ صَوْتِي، فَقَالَ: مَنْ هَذَا
حُذَيْفَةُ ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: مَا حَاجَتُكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ وَلِأُمِّكَ
؟ قَالَ: إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلِ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ
اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ، وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ
سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا
شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ . قَالَ: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ،
لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ.ترمذی 3781
ترجمہ:حذیفہ
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔کہ مجھ سے میری والدہ
نے پوچھا: تو نبی اکرم ﷺکی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے
دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جاسکا ہوں، تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں، میں نے ان سے کہا۔
اب مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس جانے دیجئیے میں آپ کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور آپ
سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چنانچہ میں نبی اکرمﷺکے
پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ
(نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے
عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز
سنی تو فرمایا: کون ہو؟ حذیفہ؟ میں نے عرض
کیا: جی ہاں، حذیفہ رضی اللہ عنہ ہوں، آپ نے فرمایا: «ما
حاجتک غفر اللہ لک ولأمك» کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو (پھر)
آپ نے فرمایا: یہ ایک فرشتہ تھا جو
اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ
بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن
رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہاہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔
رسول اللہﷺ کی سیاہ چادر میں مقدس
ہستیاں
عن
صفية بنت شيبة قالت : قالت عائشة رضي اﷲ عنها : خرج النبي صلي الله عليه وآله وسلم
غداة و عليه مرط مرحل من شعر أسود. فجاء الحسن بن علي فأدخله، ثم جاء الحسين فدخل
معه ثم جاء ت فاطمة فأدخلها، ثم جاء علي فأدخله، ثم قال : (إنما يريد اﷲ ليذهب عنکم
الرجس أهل البيت و يطهرکم تطهيرا).
ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ؆ رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺصبح کے
وقت باہر تشریف لائے۔ آپﷺنے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اون سے کجاؤوں کے
نقش بنے ہوئے تھے۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ ﷺنے انہیں اس چادر میں داخل
کر لیا پھر حسین رضی اللہ عنہ آئے اور آپ کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر فاطمہ
رضی اللہ عنہا؆ آئیں، آپﷺنے انہیں اس چادر میں داخل کر لیا، پھر علی رضی اللہ عنہ
آے۔تو آپﷺنے انہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپﷺنے یہ آیت مبارکہ پڑھی ’’اے اہل
بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دور کر دے اور تم کو کمال درجہ
طہارت سے نواز دے۔صحیح مسلم
حسنین کریمین ؆ رضی اللہ عنہما سے محبت لازم
عن
عبد اﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : من أحبني
فليحب هذين.
حضرت
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا : جس نے
مجھ سے محبت کی، اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں سے بھی محبت کرے۔ نسائی
اہل قرابت کی مودت واجب
عن
ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : لما نزلت (قُلْ لَا أَسْألُکُمْ عَلَيْهِ أجْرًا إِلَّا
الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی) قالوا : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! ومن قرابتک هؤلاء
الذين و جبت علينا مودتهم؟ قال : علي و فاطمة و أبناهما.
حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت مبارکہ ’’فرما دیں میں تم سے اس
(تبلیغ حق اور خیرخواہی) کا کچھ صلہ نہیں چاہتا بجز اہل قرابت سے محبت کے‘‘ نازل ہوئی
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! آپ کے وہ کون سے قرابت دار
ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپﷺنے فرمایا : علی، فاطمہ رضی اللہ عنہااور ان کے
دونوں بیٹے (حسن و حسین؆ )۔طبرانی
حسنین کریمین رضی اللہ عنہما؆ کی محبت رسول اللہﷺ کی محبت
عن
أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من أحب الحسن
والحسين فقد أحبني.
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺنے فرمایا : جس نے حسن اور حسین
علیہما السلام سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی۔ابن ماجہ
حسنین کریمین رضی اللہ عنہما؆ کی محبت جنت میں داخلے کا سبب
عن
سلمان رضي الله عنه قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : من أحبهما
أحبني، ومن أحبني أحبه اﷲ، ومن أحبه اﷲ أدخله الجنة.
سلمان
فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس
نے حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی، اور
جس نے مجھ سے محبت کی اس سے اللہ نے محبت کی، اور جس سے اللہ نے محبت کی اس نے اسے
جنت میں داخل کردیا۔حاکم، المستدرک،
حسنین کریمین ؆رضی اللہ عنہماکی
محبت اور نعمتوں والی جنت
عن
سلمان رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم للحسن و الحسين : من
أحبهما أحببته، ومن أحببته أحبه اﷲ، ومن أحبه اﷲ أدخله جنات النعيم.
سلمان
فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی
اللہ عنہ کے لئے فرمایا : جس نے ان سے محبت کی اس سے میں نے محبت کی، اور جس سے میں
محبت کروں اس سے اللہ محبت کرتا ہے، اور جس کو اللہ محبوب رکھتا ہے اسے نعمتوں والی
جنتوں میں داخل کرتا ہے۔ طبرانی معجم الکبیر
اہل بیت کی محبت اور قربت رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عن
علي بن أبي طالب رضي الله عنه : أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أخذ بيد حسن
و حسين، فقال : من أحبني و أحب هذين و أباهما و أمهما کان معي في درجتي يوم القيامة.
حضرت
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسن رضی اللہ
عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا ۔جس نے مجھ سے اور ان دونوں سے
محبت کی اور ان کے والد سے اور ان کی والدہ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے
ہی ٹھکانہ پر ہو گا۔ ترمذي
عن
علیّ رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : أنا و فاطمة و حسن و حسين
مجتمعون، و من أحبنا يوم القيامة نأکل و نشرب حتي يفرق بين العباد.
حضرت
علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا : میں، فاطمہ رضی اللہ
عنہا ، حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ
عنہ اور جو ہم سے محبت کرتے ہیں قیامت کے دن ایک ہی مقام پر جمع ہوں گے، ہمارا کھانا
پینا بھی اکٹھا ہو گا تاآنکہ لوگ (حساب و کتاب کے بعد) جدا جدا کر دیئے جائیں گے۔‘‘
طبرانی
یا اللہ تو بھی حسنین کریمین ؆رضی
اللہ عنہما سے محبت فرما
حَدَّثَنَا
مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَسَامَةَ، عَنِ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ،
عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ أَبْصَرَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا
. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ۔ترمذی 3782
.ترجمہ:براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے
حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو فرمایا: «اللهم
إني أحبهما فأحبهما» اے
اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان دونوں سے محبت فرما ۔ترمذی
میری
محبت کی خاطر اہل بیت سے محبت کرو
حَدَّثَنَا
أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَشْعَثِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ
مَعِينٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ النَّوْفَلِيِّ،
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ
ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحِبُّوا اللَّهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ،
وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللَّهِ، وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي
. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.ترمذی
3789
ترجمہ:عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا۔اللہ سے محبت کرو کیونکہ وہ
تمہیں اپنی نعمتیں کھلا رہا ہے، اور محبت کرو مجھ سے اللہ کی خاطر، اور میرے اہل بیت
سے میری خاطر ۔
حسنین کریمین ؆ رضی اللہ عنہما
سے بغض رکھنے کی سزا
حَدَّثَنَا
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ
دَاوُدَ بْنِ أَبِي عَوْفٍ أَبِي الْحَجَّافِ وَكَانَ مَرْضِيًّا، عَنْ أَبِي
حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَحَبَّ
الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي۔
ابن ماجہ
ابوہریرہ
ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔جس نے حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان
دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۔
حسنین کریمین رضی اللہ عنہما؆ سے بغض رکھنا دوزخ میں داخلے کا
سبب
عن
سلمان رضي الله عنه قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : من أبغضهما
أبغضني، و من أبغضني أبغضه اﷲ، ومن أبغضه اﷲ أدخله النار
سلمان
فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺکو فرماتے ہوئے سنا : جس
نے حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ
سے بغض رکھا وہ اللہ کے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو اﷲ کے ہاں مبغوض ہوا، اُسے اللہ نے
آگ میں داخل کر دیا۔‘‘حاکم، المستدرک
حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا و حسنین رضی اللہ عنہما؆ کی جس سے صلح
حَدَّثَنَا
الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَا:
حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ، عَنْ
السُّدِّيِّ، عَنْ صُبَيْحٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ
أَرْقَمَ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
لَعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ أَنَا سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ
وَحَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ.ابن ماجہ 145
رسول
اللہﷺ نے علی رضی اللہ عنہ ، فاطمہ رضی اللہ عنہا، حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میں اس شخص کے لیے سراپا صلح ہوں جس سے تم لوگوں
نے صلح کی، اور سراپا جنگ ہوں اس کے لیے جس سے تم لوگوں نے جنگ کی ۔
حضور ﷺکی حالت نماز اور حسنین کریمین
رضی اللہ عنہما؆
عن
عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يصلي فإذا سجد
وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا أرادوا أن يمنعوهما أشار إليهم أن دعوهما، فلما
صلي وضعهما في حجره.
حضرت
عبداﷲ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نماز ادا فرما رہے تھے،
جب سجدے میں گئے تو حسنین کریمین ؆رضی اللہ عنہما آپﷺکی پشت مبارک پر سوار ہو گئے،
جب لوگوں نے انہیں روکنا چاہا تو آپﷺ نے لوگوں کو اشارہ فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو.
یعنی سوار ہونے دو، پھر جب نماز ادا فرما چکے تو آپﷺنے دونوں کو اپنی گود میں لے لیا۔‘‘
نسائی
حضور ﷺ کا حسنین کریمین ؆رضی
اللہ عنہماکے رونے کی آواز سننا
عن
يحيي بن أبي کثير : أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم سمع بکاء الحسن و الحسين،
فقام فزعا، فقال : إن الولد لفتنة لقد قمت إليهما و ما أعقل.
یحییٰ
بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے حضرت حسن و حسین ؆ رضی اللہ
عنہما کے رونے کی آواز سنی تو پریشان ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا : بے شک اولاد
آزمائش ہے، میں ان کے لئے بغیر غور کئے کھڑا ہو گیا ہوں۔‘‘ابن ابي شيبه، .
حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ؆کے لیے حضور ﷺ کا خطبہ موقوف کرنا
عن
أبي بريدة رضي الله عنه يقول : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يخطبنا إذ جاء
الحسن و الحسين عليهما السلام، عليهما قميصان أحمران يمشيان و يعثران، فنزل رسول اﷲ
صلي الله عليه وآله وسلم من المنبر فحملهما و وضعهما بين يديه، ثم قال : صدق اﷲ :
(إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَ أَوْلَادُکُمْ فِتْنةٌ) فنظرت إلي هذين الصبيين يمشيان
و يعثران، فلم أصبر حتي قطعت حديثي و رفعتهما۔
حضرت
ابوبریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے،
اتنے میں حسنین کریمین؆ تشریف لائے، انہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور
وہ (صغرسنی کی وجہ سے) لڑکھڑا کر چل رہے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ(انہیں دیکھ کر) منبر
سے نیچے تشریف لے آئے، دونوں (شہزادوں) کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا
: اﷲ تعالیٰ کا ارشاد سچ ہے : (بیشک تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہی ہیں۔
) میں نے ان بچوں کو لڑکھڑا کر چلتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا حتی کہ میں نے اپنی
بات کاٹ کر انہیں اٹھا لیا۔‘‘ ترمذی
حسنین کریمین رضی اللہ عنہما؆کا رسول اللہﷺ کی زبان چوسنا
عن
أبي هريرة رضي الله عنه فقال : أشهد لخرجنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم
حتي إذا کنا ببعض الطريق سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم صوت الحسن و الحسين،
و هما يبکيان و هما مع أمهما، فأسرع السير حتي أتاهما، فسمعته يقول لها : ما شأن
ابني؟ فقالت : العطش قال : فاخلف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الي شنة يبتغي فيها
ماء، و کان الماء يومئذ أغدارا، و الناس يريدون الماء، فنادي : هل أحد منکم معه مائ؟
فلم يبق أحد الا أخلف بيده الي کلابه يبتغي الماء في شنة، فلم يجد أحد منهم قطرة،
فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ناوليني أحدهما، فناولته اياه من تحت الخدر،
فأخذه فضمه الي صدره و هو يطغو ما يکست، فأدلع له لسانه فجعل يمصه حتي هدأ أو سکن،
فلم أسمع له بکاء، و الآخر يبکي کما هو ما يسکت فقال : ناوليني الآخر، فناولته اياه
ففعل به کذلک، فسکتا فما أسمع لهما صوتا۔
حضرت
ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم حضور نبی اکرمﷺکے ساتھ
(سفر میں) نکلے، ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ آپﷺنے حسن و حسین؆ کی آواز سنی دونوں
رو رہے تھے اور دونوں اپنی والدہ ماجدہ (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا) کے پاس ہی تھے۔
پس آپ ﷺاُن کے پاس تیزی سے پہنچے۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے آپﷺکو سیدہ فاطمہ رضی
اللہ عنہا سے یہ فرماتے ہوئے سنا : میرے بیٹوں کو کیا ہوا؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ
عنہا نے بتایا انہیں سخت پیاس لگی ہے۔ حضور
اکرﷺ پانی لینے کے لئے مشکیزے کی طرف بڑھے۔ ان دنوں پانی کی سخت قلت تھی اور لوگوں
کو پانی کی شدید ضرورت تھی۔
آپ
ﷺنے لوگوں کو آواز دی : کیا کسی کے پاس پانی ہے؟ ہر ایک نے کجاؤوں سے لٹکتے ہوئے
مشکیزوں میں پانی دیکھا مگر ان کو قطرہ تک نہ ملا۔ آپﷺنے سیدہ فاطمہ رضی اللہ
عنہا سے فرمایا : ایک بچہ مجھے دیں اُنہوں نے ایک کو پردے کے نیچے سے دے دیا۔ پس آپ
ﷺ نے اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا مگر وہ سخت پیاس کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا
اور خاموش نہیں ہو رہا تھا۔ پس آپﷺ نے اُس کے منہ میں اپنی زبان مبارک ڈال دی وہ اُسے
چوسنے لگا حتی کہ سیرابی کی وجہ سے سکون میں آ گیا میں نے دوبارہ اُس کے رونے کی آواز
نہ سنی، جب کہ دوسرا بھی اُسی طرح (مسلسل رو رہا تھا) پس حضوﷺ نے فرمایا : دوسرا بھی
مجھے دے دیں تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دوسرے کو بھی حضور ﷺکے حوالے کر دیا حضورﷺنے
اس سے بھی وہی معاملہ کیا (یعنی زبان مبارک اس کے منہ میں ڈالی) سو وہ دونوں ایسے خاموش
ہوئے کہ میں نے دوبارہ اُن کے رونے کی آواز نہ سنی۔طبرانی المعجم الکبیر
حسنین کریمین ؆کا حضور ﷺکے جسم مبارک پر کھیلنا
عن
انس بن مالک رضي الله عنه قال : دخلت أو ربما دخلت علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله
وسلم والحسن والحسين يتقلبان علي بطنه، قال : و يقول ريحانتي من هذه الأمة :
.
حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر
ہوتا یا (فرمایا) اکثر اوقات حاضر ہوتا (اور دیکھتا کہ) حسن و حسین؆ آپﷺکے شکم مبارک
پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے اور حضور نبی اکرمﷺ فرما رہے ہوتے ۔یہ دونوں ہی تو میری امت
کے پھول ہیں۔نسائی
حسنین کریمین ؆کا حضور ﷺکے کندھوں
پر سوار ہونا
عن
أبي هريرة رضي الله عنه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و معه حسن
و حسين هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه.
حضرت
ابوہریررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور
نبی اکرم ﷺہمارے پاس تشریف لائے تو آپ ﷺکے ایک کندھے پر حسن رضی اللہ عنہ اور دوسرے کندھے پر حسین رضی اللہ عنہ سوار تھے۔‘‘ احمد بن حنبل
حسنین کریمین ؆کتنے اچھے سوار کتنی
اچھی سواری
عن
عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : رأيت الحسن والحسين عليهما السلام علي عاتقي النبي
صلي الله عليه وآله وسلم، فقلت : نعم الفرس
تحتکما۔ قال : و نعم الفارسان هما۔
حضرت
عمر بن خطابرضی اللہ عنہفرماتے ہیں کہ میں نے حسن و حسین ؆ کو حضور نبی اکرم ﷺکے کندھوں پر (سوار) دیکھا تو
حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ آپ کے نیچے کتنی اچھی سواری ہے! آپﷺنے جواباً ارشاد فرمایا
: ذرا یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنے اچھے ہیں۔بزار، المسند
حسنین کریمین ؆کی خاطر سجدوں میں
طوالت
عن
عبداﷲ بن شداد عن أبيه قال : خرج علينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في احدي
صلاتي العشاء و هو حامل حسناً أو حسيناً فتقدم رسول اﷲ
صلي
الله عليه وآله وسلم فوضعه ثم کبر للصلاة فصلي، فسجد بين ظهراني صلاته سجدة أطالها۔
قال أبي : فرفعت رأسي و اذا الصبي علي ظهر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو
ساجد فرجعت الي سجودي، فلما قضي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم الصلاة، قال الناس
: يا رسول اﷲ انک سجدت بين ظهراني صلاتک سجدة أطلتها حتي ظننا أنه قد حدث أمر أو
أنه يوحي إِليک. قال : ذلک لم يکن ولکن ابني ارتحلني فکرهت أن أعجله حتي يقضي حاجته.
عبداﷲ
بن شداد اپنے والد حضرت شداد بن ھادرضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ
عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپﷺحسن یا حسین؆(میں سے کسی
ایک شہزادے) کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ حضورﷺ نے تشریف لا کر اُنہیں زمین پر بٹھا دیا پھر
نماز کے لئے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنا شروع کر دی، نماز کے دوران حضورﷺنے طویل سجدہ
کیا۔ شداد نے کہا : میں نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ شہزادے سجدے کی حالت میں آپﷺ کی پشت
مبارک پر سوار ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضوﷺ نماز ادا فرما چکے تو لوگوں
نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ ﷺ! آپ نے نماز میں اتنا سجدہ طویل کیا۔ یہاںتک کہ ہم نے گمان
کیا کہ کوئی امرِ اِلٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ ﷺ پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپﷺ نے
ارشاد فرمایا : ایسی کوئی بات نہ تھی مگر یہ کہ مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے
(سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو۔ نسائی
علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی
اللہ عنہا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ؆سے محبت کرنے والے
عن
علي رضي الله عنه قال : أخبرني رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ان أول من يدخل
الجنة أنا و فاطمة و الحسن و الحسين. قلت : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! فمحبونا؟
قال : من ورائکم.
حضرت
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے مجھے بتایا کہ سب سے پہلے جنت میں داخل
ہونے والوں میں، میں (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ خود)، فاطمہ رضی اللہ عنہا ، حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔
میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲﷺ! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔تمہارے
پیچھے۔حاکم، المستدرک،
حسنین کریمین؆ رضی اللہ عنہ جنت
کے دو ستون
عن
عقبة بن عامررضي الله عنه، أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : الحسن و الحسين
شنفا العرش و ليسا بمعلقين، و إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : إذا استقر أهل
الجنة في الجنة، قالت الجنة : يا رب! وعدتني أن تزينني برکنين من أرکانک! قال : أولم
أزينک بالحسن و الحسين؟
عقبہ
بن عامررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا : حسن رضی اللہ عنہ اور
حسین رضی اللہ عنہ عرش کے دو ستون ہیں لیکن وہ لٹکے ہوئے نہیں اور آپ ﷺنے ارشاد فرمایا
: جب اہل جنت، جنت میں مقیم ہو جائیں گے تو جنت عرض کرے گی : اے پروردگار! تو نے مجھے
اپنے ستونوں میں سے دو ستونوں سے مزین کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا
: کیا میں نے تجھے حسن رضی اللہ عنہاور حسین رضی اللہ عنہ کی موجودگی کے ذریعے مزین
نہیں کر دیا؟ (یہی تو میرے دو ستون ہیں)۔ طبرانی
حسنین کریمین؆ رضی اللہ عنہما جنت
کی زینت
عن
أنس رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : فخرت الجنة علي النار
فقالت : أنا خير منک، فقالت النار : بل أنا خير منک، فقالت لها الجنة إستفهاما :
و ممه؟ قالت : لأن في الجبابرة و نمرود و فرعون فأسکتت، فأوحي اﷲ اليها : لا تخضعين،
لأزينن رکنيک بالحسن و الحسين، فماست کما تميس العروس في خدرها.
حضرت
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺنے فرمایا : ایک مرتبہ جنت نے دوزخ
پر فخر کیا اور کہا میں تم سے بہتر ہوں، دوزخ نے کہا : میں تم سے بہتر ہوں۔ جنت نے
دوزخ سے پوچھا کس وجہ سے؟ دوزخ نے کہا : اس لئے کہ مجھ میں بڑے بڑے جابر حکمران فرعون
اور نمرود ہیں۔ اس پر جنت خاموش ہو گئی، اﷲ تعالیٰ نے جنت کی طرف وحی کی اور فرمایا
: تو عاجز و لاجواب نہ ہو، میں تیرے دو ستونوں کو حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی
اللہ عنہ کے ذریعے مزین کر دوں گا۔ پس جنت خوشی اور سرور سے ایسے شرما گئی جیسے دلہن
شرماتی ہے۔ طبرانی
حضورﷺ کا حسنین کریمین؆ کو دم فرمانا
عن
ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال : کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يعوذ الحسن و الحسين،
و يقول : إن أباکما کان يعوذ بها إسماعيل و إسحاق : أعوذ بکلمات اﷲ التامة من کل
شيطان وهامة و من کل عين لامة.
حضرت
عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ حسن و حسین؆ رضی اللہ
عنہماکے لئے (خصوصی طور پر) کلمات تعوذ کے ساتھ دم فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے کہ
تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) اپنے دونوں صاحبزادوں اسماعیل و اسحاق (علیھما
السلام) کے لئے ان کلمات کے ساتھ تعوذ کرتے تھے ’’میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے
ذریعے ہر (وسوسہ اندازی کرنے والے) شیطان اور بلا سے اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا
ہوں۔بخاري
حسنین کریمین ؆رضی اللہ عنہماکے
لیے راستے کا روشن ہونا
عن
أبي هريرة رضي الله عنه قال : کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم العشاء،
فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه اخذاً
رفيقاً و يضعهما علي الأرض، فإذا عاد، عادا حتي قضي صلا ته، أقعدهما علي فخذيه، قال
: فقمت إليه، فقلت : يا رسول اﷲ ! أردهما فبرقت برقة، فقال : لهما : الحقا بأمکما،
قال : فمکث ضوئها حتي دخلا.
حضرت
ابوہريرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ نمازِ عشاء ادا
کر رہے تھے، جب آپ سجدے میں گئے تو حضرت حسن اور حسین ؆ آپ ﷺکی پشت مبارک پر سوار
ہو گئے، جب آپ ﷺنے سجدے سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اپنے پیچھے سے نرمی سے پکڑ کر
زمین پر بٹھا دیا۔ جب آپﷺدوبارہ سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السلام نے دوبارہ
ایسے ہی کیا حتی کہ آپﷺنے نماز مکمل کرنے کے بعد دونوں کو اپنی (مبارک) رانوں پر بٹھا
لیا۔ میں نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اﷲ ﷺ! میں انہیں واپس چھوڑ آتا ہوں۔ پس
اچانک آسمانی بجلی چمکی اور آپ ﷺنے (حسنین کریمین؆ ) کو فرمایا کہ اپنی والدہ کے
پاس چلے جاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
بیان کرتے ہیں کہ ان کے گھر میں داخل ہونے تک وہ روشنی برقرار رہی۔ احمد بن
حنبل
حضور ﷺاور جبریل کا حسنین کریمین
رضی اللہ عنہما؆کو داد دینا
عن
أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : کان الحسن و الحسين
عليهما السلام يصطرعان بين يدي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فکان رسول اﷲ صلي
الله عليه وآله وسلم يقول : هی حسن.
فقالت
فاطمة سلام اﷲ عليها : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! لم تقول هی حسن؟ فقال : إن جبريل
يقول : هی حسين.
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺکے سامنے حسنین کریمین
؆ کشتی لڑ رہے تھے اور آپﷺفرما رہے تھے : حسن رضی اللہ عنہ جلدی کرو. سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : یا رسول اﷲﷺ! آپ صرف حسن رضی اللہ
عنہ کو ہی ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ آپﷺ نے
جواب دیا : کیونکہ جبرئیل امین حسین رضی اللہ عنہ کو جلدی کرنے کا کہہ کر داد دے رہے
تھے۔ ابويعلیٰ
اہل نجران کے ساتھ مباہلہ اور حسنین
کریمین رضی اللہ عنہما؆
عن
الشعبي رضي الله عنه قال : لما أراد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن يلا عن
أهل نجران، أخذ بيد الحسن والحسين و کانت فاطمة تمشي خلفه.
حضرت
شعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرمﷺنے اہل نجران کے ساتھ مباھلہ کا
ارادہ فرمایا تو حسنین کریمین؆ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے لیا اور سیدہ فاطمہ رضی
اللہ عنہا آپ ﷺکے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں۔‘‘
ابن ابي شيبه
امت کی بربادی اور قریش کے بعض
نو عمر لڑکے
حَدَّثَنَا
إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ
، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:
حَفِظْتُ مِنْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا
عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:
كُنْتُ مَعَ مَرْوَانَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ، فَسَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ،
يَقُولُ: سَمِعْتُ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقُ، يَقُولُ: هَلَاكُ
أُمَّتِي عَلَى يَدَيْ غِلْمَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَ مَرْوَانُ: غِلْمَةٌ،
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِنْ شِئْتَ أَنْ أُسَمِّيَهُمْ بَنِي فُلَانٍ
وَبَنِي فُلَانٍ.بخاری 3605
ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے سچوں کے سچے رسول اللہﷺسے سنا ہے۔ آپ ﷺفرما رہے تھے کہ میری امت کی بربادی قریش کے چند
لڑکوں کے ہاتھوں پر ہوگی۔ مروان نے پوچھا: نوجوان لڑکوں کے ہاتھ پر؟ اس پر ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں ان کے نام بھی لے دوں کہ وہ بنی فلاں اور
بنی فلاں ہوں گے۔بخاری
ام سلمی رضی اللہ عنہا کا امام
حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھنا
حَدَّثَنَا
أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، حَدَّثَنَا رَزِينٌ،
قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَوَهِيَ
تَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِي فِي الْمَنَامِ، وَعَلَى رَأْسِهِ
وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا . قَالَ:
هَذَا غَرِيبٌ.ترمذی 3771
سلمیٰ
کہتی ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے پاس آئی، وہ رو رہی تھیں، میں
نے پوچھا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہﷺکو دیکھا ہے (یعنی خواب میں) آپ کے سر اور داڑھی پر مٹی تھی، تو میں نے عرض
کیا۔ آپ کو کیا ہوا ہے؟ اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا۔میں نےحسین رضی اللہ عنہ کا
قتل ابھی ابھی دیکھا ہے ۔ ترمذی
ابن زیاد کا انجام
حَدَّثَنَا
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ
الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: لَمَّا جِيءَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ،
وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ
وَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ
تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ،
فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً، ثُمَّ خَرَجَتْ، فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ،
ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ
أَوْ ثَلَاثًا. هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.ترمذی 3780
ترجمہ:عمارہ
بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے ۔ اور کوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ
دیا گیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ
ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہو کر آیا اور عبیداللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل
ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلا گیا، یہاں تک کہ غائب ہوگیا، پھر لوگ
کہنے لگے: آیا آیا، اس طرح دو یا تین بار ہوا ۔ترمذی۔
Comments
Post a Comment