حكم تقبيل الزوجة في صوم #روزے کی حالت میں بوس و کنار کا حکم۔سید ظہیر حسین شاہ رفاعیRozay ki halat main Bos o kinar ka hukam

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہم صل علی محمد و علی آلہ وصحبہ وسلم

یہ کتاب روزے کی حالت میں بیوی سے بوس و کنار کے احکام سے متعلق لکھی گئی ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔علماء فرماتے ہیں۔جب امہات المومنین رضوان اللہ علیہن اجمعین سے متعلقہ احادیث و آثار پڑھے جائیں۔ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان مقدس خواتین کوگمان  میں اپنی حقیقی ماں  تصور کرکے مطالعہ کرے۔جھجک جہالت کو جنم دیتی ہے۔تقوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمیں روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے معاملات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالی ہمیں فحاشی بے حیائی سے محفوظ فرماے۔اللہ ہمیں تقوی عطا فرماے۔آمین۔دوران مطالعہ اگر اس کتاب میں کسی جگہ لفظی یا معنوی غلطی نظر آے ۔براہ کرم 03044653433 پر وٹس ایپ فرما دیں۔آپ بھی صدقہ جاریہ میں حصہ ڈالیں۔اس کتاب کا خود بھی مطالعہ کریں۔اور آگے شئیر بھی فرما دیں۔

رفاعی اسلامک ریسرچ سینٹر

سید ظہیر حسین شاہ رفاعی

 

اِنَّمَا يَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْۗءِ وَالْفَحْشَاۗءِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ    ١٦٩؁

وہ تمہیں صرف برائی اور بےحیائی (کے کاموں) کا حکم دیتا ہے اور اللہ کے متعلق ایسی بات کہنے کا (حکم دیتا ہے) جس کو تم نے نہیں جانتے ۔البقرہ ۔تبیان القرآن

اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ ۚ وَاللّٰهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا  ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ    ٢٦٨؁ڦ

شیطان تم کو تنگدستی سے ڈراتا ہے اور تم کو بےحیائی کا حکم دیتا ہے ‘ اور اللہ تم سے اپنی بخشش اور اپنے فضل کا وعدہ فرماتا ہے ‘ اور اللہ بڑی وسعت والابہت جاننے والا ہے ۔البقرہ۔تبیان القرآن

وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْهَآ اٰبَاۗءَنَا وَاللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا  ۭقُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ  ۭاَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ   28؀

اور جب وہ کوئی بےحیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے ان ہی کاموں پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ہمیں اللہ نے ان کاموں کا حکم دیا ہے، آپ کہیے بیشک اللہ بےحیائی کا حکم نہیں دیتا، کیا تم اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہو جن کا تمہیں علم نہیں ہے ۔سورہ الاعراف تبیان القرآن

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ  ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ  ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 19؀

بیشک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بےحیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخڑت میں درد ناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے .۔سورہ النور۔تبیان القرآن

 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِکُلِّ ابْنِ آدَمَ حَظُّهُ مِنْ الزِّنَا بِهَذِهِ الْقِصَّةِ قَالَ وَالْيَدَانِ تَزْنِيَانِ فَزِنَاهُمَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلَانِ تَزْنِيَانِ فَزِنَاهُمَا الْمَشْيُ وَالْفَمُ يَزْنِي فَزِنَاهُ الْقُبَلُ

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر آدمی کے لیے زنا کا ایک حصہ مقرر ہے اور دونوں ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا چلنا ہے اور منہ بھی زنا کرتا ہے اور اس کا زنا بوسہ لینا ہے ۔ابوداود

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ وَکَانَ أَمْلَکَکُمْ لِإِرْبِهِ وَقَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مَآرِبُ حَاجَةٌ قَالَ طَاوُسٌ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ الْأَحْمَقُ لَا حَاجَةَ لَهُ فِي النِّسَائِ

حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے۔کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسہ لیتے اور میرےساتھ لیٹتے تھے۔ اس حال میں کہ روزہ دار ہوتے اور وہ تم میں سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قادر تھے۔بخاری

عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِکٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ إِنْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُقَبِّلُ بَعْضَ أَزْوَاجِهِ وَهُوَ صَائِمٌ ثُمَّ ضَحِکَتْ

حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتی ہیں، عبداللہ بن مسلمہ، مالک، ہشام، عروہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بعض بیویوں کا بوسہ لیتے اس حال میں کہ روزہ دار ہوتے، پھر ہنس دیں۔ بخاری

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُنِي وَهُوَ صَائِمٌ وَأَنَا صَائِمَةٌ

حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا بوسہ لیتے تھے اس حال میں کہ میں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں روزہ دار ہوتے تھے۔ ابوداود

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي قَالَ كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ شَابٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَبِّلُ وَأَنَا صَائِمٌ قَالَ لَا فَجَاءَ شَيْخٌ فَقَالَ أُقَبِّلُ وَأَنَا صَائِمٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَنَظَرَ بَعْضُنَا إِلَى بَعْضٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عَلِمْتُ لِمَ نَظَرَ بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ إِنَّ الشَّيْخَ يَمْلِكُ نَفْسَهُ

حضرت ابن عمرو (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک نوجوان آیا اور کہنے لگایا رسول اللہ ! روزے کی حالت میں میں اپنی بیوی کو بوسہ دے سکتا ہوں ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں تھوڑی دیر بعد ایک بڑی عمر کا آدمی آیا اور اس نے بھی وہی سوال پوچھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اجازت دے دی اس پر ہم لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے معلوم ہے کہ تم ایک دوسرے کو کیوں دیکھ رہے ہو ؟ دراصل عمر رسیدہ آدمی اپنے اوپر قابو رکھ سکتا ہے۔ مسند احمد

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَائِشَةَ ابْنَةَ طَلْحَةٍ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا زَوْجُهَا هُنَالِكَ وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: «مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَدْنُوَ إِلَى أَهْلِكَ تُقَبِّلُهَا وَتُلاعِبُهَا؟» ، قَالَ: " أُقَبِّلُهَا وَأَنَا صَائِمٌ؟ قَالَتْ: نَعَمْ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِالْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ إِذَا مَلَكَ نَفْسَهُ عَنِ الْجِمَاعِ، فَإِنْ خَافَ أَنْ لا يَمْلِكَ نَفْسَهُ، فَالْكَفُّ أَفْضَلُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ وَالْعَامَّةِ قَبْلَنَا

حضرت عائشہ بنت طلحہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ میں ام المؤمنین عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس تھی اور عائشہ بنت طلحہ کا خاوند وہیں آگیا جو کہ عبداللہ بن عبد الرحمن تھا۔ اور وہ روزہ سے تھا۔ پس حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے اس سے فرمایا تجھے کیا چیز اس سے روکتی ہے کہ تو اپنی بیوی کے قرب جائے اور اس کا بوسہ لے۔ اور اس سے ملاعبت کرے۔ اس نے کہا کیا میں روزہ کی حالت میں بھی اس کا بوسہ لے لوں ؟ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا)  نے فرمایا۔ ہاں۔ (اس روایت کو امام مالک نے باب الرخصۃ فی القبلۃ للصائم میں ذکر کیا ہے) قول محمد (رحمۃ اللہ علیہ) یہ ہے : روزہ دار کو اس وقت بوسہ میں کوئی حرج نہیں جبکہ وہ جماع سے بچنے کی پوری قوت رکھتا ہو۔ اگر اسے خطرہ ہو کہ وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے گا تو اس سے بچنا افضل ہے۔ یہی امام ابو حنیفہ (رحمۃ اللہ  علیہ) کا قول ہے۔ ہم سے پہلے تابعین اور صحابہ کا قول ہے۔ موطا محمد

حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ فِی شَہْرِ الصَّوْمِ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان میں بوسہ لیا کرتے تھے۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ۔ وَحَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی فِی الْقُبْلَۃِ وُضُوئًا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک بوسہ لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ ابن شیبہ

حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی فِی الْقُبْلَۃِ وُضُوئًا

حضرت حسن بصری  رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بوسہ لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْقُبْلَۃِ وُضُوئٌ۔

حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بوسہ لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : مَا أُبَالِی قَبَّلْتُہَا ، أَوْ قَبَّلْتُ یَدِی۔

حضرت مسروق  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ میں اپنی بیوی کا بوسہ لوں یا اپنے ہاتھ کا بوسہ لوں۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْقُبْلَۃِ وُضُوئٌ

حضرت ابو جعفررحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ بوسہ لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَرَی الْقُبْلَۃَ مِنَ اللَّمْسِ ، وَیَأْمُرُ مِنْہَا بِالْوُضُوئِ

حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ کے نزدیک بوسہ چھونے کی طرح ہے اور وہ بوسہ لینے کی وجہ سے وضو کا حکم دیتے تھے۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، وَہُشَیْمٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : الْقُبْلَۃُ مِنَ اللَّمْسِ ، وَمِنْہَا الْوُضُوئُ۔

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ  کے نزدیک بوسہ چھونے کی طرح ہے اور وہ بوسہ لینے کی وجہ سے وضو کا حکم دیتے تھے۔ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا قَبَّلَ لِشَہْوَۃٍ نُقِضَ الْوُضُوئُ۔

حضرت ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص شہوت سے بوسہ لے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ فِی شَہْرِ الصَّوْمِ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان میں بوسہ لیا کرتے تھے۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ

حضرت علی رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ روزہ دار کے لیے بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُبَشِّرٍ ، عَنْ زَیْدٍ أَبِی عَتَّاب ، قَالَ : سُئِلَ سَعْدٌ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ: إنِّی لآخذْتہُ مِنْہَا وَأَنَا صَائِمٌ۔

 

حضرت زید ابی عتاب فرماتے ہیں کہ حضرت سعد سے روزہ دار کے لیے بوسہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں روزہ کی حالت میں ایسا کرتا ہوں۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : لاَ بَأْسَ بِہَا ، مَا لَمْ یَعْدُ ذَلِکَ۔

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روزے کی حالت میں بوسہ لینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اگر اس سے آگے نہ بڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عن أَبِی الضُّحَی ، عَنْ شُتَیْرِ بْنِ شَکَلٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ عُمَرَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ وَہُوَ صَائِمٌ

ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمررضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں بوسہ لیا کرتے تھے۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ فَرُّوخَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُنِی وَأَنَا صَائِمَۃٌ ، وَہُوَ صَائِمٌ

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا بوسہ لیا کرتے تھے حالانکہ میرا بھی روزہ ہوتا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی روزہ ہوتا تھا۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ شِہَابٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : سُئِلَ عَنِ الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ؟ فَقَالَ : إنِّی أُحِبّ أَنْ أَرفَّ شفَتَیْہَا وَأَنَا صَائِمٌ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روزہ دار کے لیے بوسہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ روزے کی حالت میں ہونٹوں کو ہونٹوں میں رکھوں۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَۃَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُہَا وَہُوَ صَائِمٌ۔

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزے کی حالت میں میرا بوسہ لیا کرتے تھے۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَعِیدٍ الأَنْصَارِیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ : ہَشَشْتُ إلَی الْمَرْأَۃِ فَقَبَّلْتُہَا وَأَنَا صَائِمٌ ، قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَرَأَیْتَ لَوْ تَمَضْمَضْتَ بِمَائٍ وَأَنْتَ صَائِمٌ ؟ قَالَ : قُلْتُ : لاَ بَأْسَ ، قَالَ : فَفِیمَ۔

حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھے اپنی بیوی کو دیکھ کررہا نہیں گیا اور میں نے روزے کی حالت میں اس کا بوسہ لے لیا، اب کیا کروں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تم روزے کی حالت میں کلی کرسکتے ہو ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جی ہاں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر بیوی کا بوسہ لینے میں کیا حرج ہے ؟ ابن ابی شیبہ ۔ابوداؤد

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مِسْعَرٌ قَالَ : حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَرْدانبۃ ، عَنْ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَنَّہَا قَالَتْ لَہُ : لَوْ دَنَوْت ، لَوْ قَبَّلْت ، وَکَانَ تَزَوَّجَ فِی رَمَضَانَ۔

حضرت ابو کثیر فرماتے ہیں کہ ان کی رمضان میں شادی ہوئی۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے ان سے فرمایا کہ اگر تم اپنی بیوی سے ملاعبت کرنا چاہو یا اس کا بوسہ لینا چاہو تو ایسا کرسکتے ہو۔ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ؛ أنَّ عَاتِکَۃَ بِنْتَ زَیْدٍ امْرَأَۃَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَبَّلَتْہُ وَہُوَ صَائِمٌ ، فَلَمْ یَنْہَہَا۔

حضرت عبداللہ بن عبید اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عاتکہ بنت زیدرضی اللہ عنہا جو کہ حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں، انھوں نے روزے کی حالت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا بوسہ لیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں منع نہیں کیا۔ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ؛ فِی الْقُبْلَۃِ لِلصَّائِمِ ، فَقَالَ : مَا أُبَالِی قَبَّلْتُہَا ، أَوْ قَبَّلْتُ یَدِی

حضرت مسروق سے روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ میرے نزدیک اس کا بوسہ لینا یا ہاتھ کا بوسہ لینا ایک جیسا ہے۔ ابن ابی شیبہ

حَدَّثَنَا رَبِیْعٌ الْمُؤَذِّنُ قَالَ :  ثَنَا شُعَیْبٌ قَالَ :  ثَنَا اللَّیْثُ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ أَبِیْ مُرَّۃَ مَوْلٰی عَقِیْلٍ عَنْ حَکِیْمِ بْنِ عِقَالٍ أَنَّہٗ قَالَ :  سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا (مَا یَحْرُمُ عَلَیَّ مِنْ امْرَأَتِی وَأَنَا صَائِمٌ ؟)  قَالَتْ (فَرْجُہَا)  فَھٰذِہٖ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَقُوْلُ فِیْمَا یَحْرُمُ عَلَی الصَّائِمِ مِنْ امْرَأَتِہٖ وَمَا یَحِلُّ لَہٗ مِنْہَا مَا قَدْ ذَکَرْنَا فَدَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الْقُبْلَۃَ کَانَتْ مُبَاحَۃً عِنْدَہَا لِلصَّائِمِ الَّذِیْ یَأْمَنُ عَلٰی نَفْسِہِ وَمَکْرُوْہَۃً لِغَیْرِہِ لَیْسَ لِأَنَّہَا حَرَامٌ عَلَیْہِ وَلٰـکِنَّہٗ لِأَنَّہٗ لَا یَأْمَنُ اِذَا فَعَلَہَا مِنْ أَنْ تَغْلِبَہٗ شَہْوَتُہٗ حَتّٰی  یَقَعَ فِیْمَا یَحْرُمُ عَلَیْہِ۔

حکیم بن عقال کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے پوچھا کہ روزے کی حالت میں مجھ پر میری بیوی کی کون سی چیز حرام ہے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ شرمگاہ۔ یہ حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) ہیں جو یہ بتلارہی ہیں کہ روزہ دار کو اپنی بیوی سے کیا چیز حرام ہے اور کیا چیز جائز و حلل ہے جس کو ہم نے ذکر کردیا ۔ اس سے یہ دلالت مل گئی کہ ان کے ہاں اس روزہ دار کے لیے بوسہ جائز تھا جس کو اپنے اوپر اطمینان اور دوسرے کے لیے مکروہ تھا۔ یہ بات نہیں کہ وہ اس پر حرام تھا ۔ لیکن اس بات کے پیش نظر کہ جب وہ بوسہ لے گا اور اسے اپنے اوپر اطمینان نہیں تو اس پر اس کی شہوت غالب آکر وہ اس کو حرام میں مبتلا کردے گی۔ یہ عائشہ (رض) فرما رہی ہیں کہ روزہ دار کے لیے جماع کے علاوہ اپنی بیوی سے ہر چیز حلال ہے پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے ہاں بوسہ اس کے لیے مباح تھا جس کو اپنے نفس پر قابو ہو اور جس کو قابو نہ ہو اس کے لیے وہ درست قرار نہ دیتی تھیں اس بناء پر نہیں کہ وہ بوسہ اس کے لیے حرام ہے بلکہ اس وجہ سے کہ کہیں وہ غلبہ شہوت میں حرام کا ارتکاب نہ کر بیٹھے گویا احتیاطاً ممانعت فرماتی تھیں۔ طحاوی شریف

وَقَدْ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ :  ثَنَا ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ قَالَ :  أَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوْبَ قَالَ :  حَدَّثَنِیْ عُقَیْلٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ صُعَیْرٍ الْعُذْرِیِّ ہٰکَذَا قَالَ ابْنُ أَبِیْ مَرْیَمَ-  وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ مَسَحَ وَجْہَہٗ-  أَنَّہٗ أَخْبَرَہٗ أَنَّہٗ سَمِعَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْہَوْنَ الصَّائِمَ عَنِ الْقُبْلَۃِ وَیَقُوْلُوْنَ إِنَّہَا تَجُرُّ إِلٰی مَا ہُوَ أَکْبَرُ مِنْہَا فَقَدْ بَیَّنَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ الْمَعْنَی الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہٖ کَرِہَہَا مَنْ کَرِہَہَا لِلصَّائِمِ وَأَنَّہٗ إِنَّمَا ہُوَ خَوْفُہُمْ عَلَیْہِ مِنْہَا أَنْ یَجُرَّہٗ إِلٰی مَا ہُوَ أَکْبَرُ مِنْہَا فَذٰلِکَ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّہٗ اِذَا ارْتَفَعَ ذٰلِکَ الْمَعْنَی الَّذِیْ مِنْ أَجْلِہٖ مَنَعُوْہُ مِنْہَا أَنَّہَا لَہٗ مُبَاحَۃٌ .

ابن شہاب نے ثعلبہ بن صعیر عذری سے نقل کیا ابن ابی مریم نے اس طرح کہا ہے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چہرے پر مسح کیا تھا اور اس نے بتلایا کہ میں نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ وہ روزہ دار کو بوسہ سے منع کرتے تھے اور کہتے یہ چیز اس سے بڑے فعل کی طرف کھینچ کرلے جانے والی ہے۔ اس روایت میں اس مطلب کو واضح طور پر ذکر کردیا گیا جس کی بناء پر بوسے کو روزہ دار کے لیے منع کیا گیا اور جن کے لیے ناپسند کیا گیا وہ اس بات کا خوف ہے کہ یہ بوسہ ان کو اس سے بڑی بات میں مبتلا نہ کردے ۔ اس سے یہ دلیل مل گئی کہ جب بات نہ پائی جاتی ہو تو وہ بوسہ اس کے لیے مباح ہوگا۔ حاصل روایات : اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ ممانعت کی وجہ اور کراہت کی وجہ حرمت نہیں بلکہ اس کی وجہ روزہ دار کا اس کی وجہ سے اس سے بڑے فعل میں ابتلاء کا خطرہ ہے یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ جس میں یہ وجہ نہ پائی جائے اس پر ممانعت کا حکم نہ لگے گا بلکہ اس کے لیے مباح ہوگا۔طحاوی شریف

وَقَدْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُزَیْمَۃَ قَالَ :  ثَنَا ہِشَامُ بْنُ إِسْمَاعِیْلَ الدِّمَشْقِیُّ الْعَطَّارُ قَالَ :  ثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ أَبِیْ حَیَّانَ التَّیْمِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ :  سَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ قُبْلَۃِ الصَّائِمِ .فَقَالَ عَلِیٌّ (یَتَّقِی اللّٰہَ وَلَا یَعُوْدُ)  فَقَالَ عُمَرُ  :  إِنْ کَانَتْ ھٰذِہٖ لَقَرِیْبَۃٌ مِنْ ھٰذِہِ فَقَوْلُ عَلِیٍّ (یَتَّقِی اللّٰہَ وَلَا یَعُوْدُ)  یَحْتَمِلُ (وَلَا یَعُوْدُ لَہَا ثَانِیَۃً) أَیْ لِأَنَّہَا مَکْرُوْہَۃٌ لَہٗ مِنْ أَجْلِ صَوْمِہٖ وَیَحْتَمِلُ (وَلَا یَعُوْدُ) أَیْ یُقَبِّلُ مَرَّۃً بَعْدَ مَرَّۃٍ فَیَکْثُرُ ذٰلِکَ مِنْہُ فَیَتَحَرَّکُ لَہٗ شَہْوَتُہُ فَیُخَافُ عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ مُوَاقَعَۃُ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَقَوْلُ عُمَرَ (ھٰذِہِ قَرِیْبَۃٌ مِنْ ھٰذِہِ) أَیْ أَنَّ ھٰذِہِ الَّتِیْ کَرِہْتُہَا لَہٗ قَرِیْبَۃٌ مِنَ الَّتِی أَبَحْتُہَا لَہٗ أَوْ إِنَّ ھٰذِہِ الَّتِیْ أَبَحْتُہَا لَہٗ قَرِیْبَۃٌ مِنَ الَّتِیْ کَرِہْتُہَا لَہٗ فَلاَ دَلَالَۃَ فِیْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ وَلٰـکِنَّ الدَّلَالَاتِ فِیْمَا قَدْ تَقَدَّمَہٗ مِمَّا قَدْ ذَکَرْنَاہُ قَبْلَہٗ.

ابو حبان تیمی نے اپنے والد سے روایت کی کہ عمر (رضی اللہ عنہ ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے روزہ دار کے بوسہ کے سلسلہ میں سوال کیا توحضرت  علی (رضی اللہ عنہ) نے کہا وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور دوبارہ ایسا نہ کرے تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا ان کانت ہذہ لقریبۃ من ہذہ تو حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے دوبارہ یہی جملہ فرمایا۔ اس روایت میں اگرچہ کوئی دلالت ایسی نہیں لیکن اس سے پہلی روایات میں ایسی دلالتیں موجود ہیں جو ہم پہلے ذکر کرچکے یتقی اللہ ولا یعود اس جملے میں دو احتمال ہیں۔ نمبر 1: کہ ایک دفعہ بوس و کنار کرلیا تو دوبارہ نہ کرے کیونکہ روزے کی وجہ سے یہ مکروہ ہے۔ نمبر 2: ایک بوسہ دے دیا تو بس بار بار بوسہ نہ شروع کر دے کہ یہ چیز اس کی شہوت کو ابھار دے گی اور کہیں وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز میں مبتلا نہ ہوجائے۔ قول حضرت  عمر (رضی اللہ عنہ) ہذہ قریبۃ من ہذہ آپ کا قول تو اس کے قریب ہے جس کو میں نے مکروہ سمجھا ہے۔ نمبر 2: میں نے جس کو مباح قرار دیا ہے وہ آپ کے اس قول کے قریب ہے جس کو آپ نے مکروہ قرار دیا ہے۔ یہ مجمل مکالمہ ہے جس سے کوئی بات ظاہر نہیں ہوتی مگر ماقبل آثار اور صحابہ کرام کے ارشادات میں ایسے دلائل ہیں جو کسی مزید دلیل کے محتاج نہیں ہیں۔ واللہ اعلم۔ طحاوی شریف

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


 

Comments

Popular posts from this blog

شرح تعبیر و خواب(سید ظہیر حسین شاہ رفاعی) Sharah Tabeer o Khawab by Syed Zaheer Hussain Shah Refai

#Fitna#Dajjal فتنہ دجال

#yom E Arfa Syed Zaheer Hussain Refai.#یوم عرفہ# سید ظہیر حسین شاہ رفاعی#